فی زمانہ ویسے تو بہت سے فتنے اور برائیاں آس پاس نظر آرہی ہیں، لیکن ایک اور چیز جو مجھے نظر آئی گرچہ ابھی کم ہے لیکن بڑھ سکتی ہے وہ ہے لڑکے اور لڑکیوں کا شادی کرنے سے دور بھاگنا کچھ عرصہ پہلے یہ چیز مغرب میں زیادہ تھی پھر وہاں مقیم مسلمانوں میں بھی آگئی کہ کون شادی کے جھنجھٹ میں پڑے بیوی بچوں کی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی، جیسے کہ میری ایک دوست نے بتایا کہ میرا اکلوتا بیٹا جو تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہے ماشاء اللہ اس میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن وہ شادی کو جھنجھٹ اور بڑی ذمہ داری سمجھتے ہوئے مسلسل ٹال رہا ہے، لیکن اب یہ فتنہ ہمارے آس پاس بھی نظر آرہا ہے پہلے خوب سے خوب تر کی تلاش میں وقت گزر جاتا تھا اب شادی نہ کرنے کی ایک وجہ وہی مغرب کی سوچ کہ ہم اس جھنجھٹ میں کیوں پڑیں کون بیوی بچوں کی ذمہ داری سنبھالے۔
ہمارے مذہب میں نکاح کو نصف دین کہا گیا ہے، دین اسلام کے ہر حکم کے پیچھے مصلحتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا’’ اے جوانوں کے گروہ ! تم میں سے جو کوئی شادی کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے ، یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والی اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والی ہے اور جو استطاعت نہیں رکھتا تو وہ روزے کو لازم کر لے ، یہ اس کے لیے خواہش کو قابو میں کرنے کا ذریعہ ہے۔
حديث مبارکہ سے نکاح کی افادیت اور حکمت بخوبی واضع ہے، یہ انسان کی فطرتی خواہشات کی حفاظت کا بند ہے دوسری طرف پاکیزہ معاشرے کی تشکیل واصلاح کا ذریعہ بھی ہے؛کیونکہ نکاح کرنے سے آدمی حرام کاری سے محفوظ رہتا ہے اسی لیے مذکورہ بالا حدیث میں خاص طور پر آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نوجوانوں سے مخاطب ہیں کہ نوجوانوں کی حفاظت کے لیے نکاح ضروری ہے۔
والدین کو اپنی اولاد کا بلوغت میں پہنچتے ہی نکاح کا حکم دیا گیا؛ بیشک نکاح میں برکت بھی ہے یہ میرا تجزیہ ہے کہ رب العزت نکاح کے بعد رزق کے دروازے بھی کشادہ کر دیتا ہے، ماشاء اللہ
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ؛جس وقت نکاح کیا بندے نے پس. اس نے پورا کیا نصف دین اپنا (مشکوٰۃ شريف) بیشک نکاح کرنے سے بندہ بے حیائی اور حرام کاری کے تمام کاموں سے بچ سکتا ہے؛؛؛ سبحان الله اس میں کوئی شک نہیں
پھر ایک اہم بات یہ کہ نکاح میں سادگی کا حکم بھی دیا گیا ہےجا نمود نمائش و افراط زر سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ خرچ کے بوجھ سے بندہ اس فریضہ سے پیچھے نہ ہٹے؛ افسوس آج نکاح شادی بیاہ میں فضول رسم و رواج اور بیکار تقریبات پر روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے جس سے آج نکاح ایک بوجھ بن گیا ہے پھر حق مہر پر بھی لڑائی جھگڑے دیکھے جاتے ہیں؛؛ گزشتہ دنوں ایک دو شادیاں ہوتے ہوتے رہ گئیں کہ لڑکی والوں نے حق مہر میں مکان کا مطالبہ کیا گیا جبکہ وہ مکان چار بہن بھائیوں اور ماں کے لئے چھت تھا؛اس لئے لڑکے والوں نے منع کر دیا اس طرح ضد کی وجه سے رشتہ ختم کردیا گیا اگر دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق شادی اور نکاح کا فریضہ ادا کیا جائے تو بہت آسانیاں دی گئیں ہیں جیسا کہ ولیمہ سنت ہے لیکن اس میں سادگی اور کم خرچ سے یہ فریضہ بھی انجام دیا جاسکتا ہے، جیسا کہ اللہ کے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ کی شادی پر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف سے سادگی سے ولیمہ کی تقریب اور کھانا جسکی مثال کہیں نہیں ملتی اور یہ شادی ہر لحاظ سے مثالی اور کامیاب تھی۔
ایک اور اہم بات آخر میں ضرور کہوں گی کہ والدین بچوں کو اس معاملے میں زیادہ ڈھیل نہ دیں انہیں وقت آنے پر ضرور اس طرف راغب کریں؛ میرےچھوٹے بیٹے عبداللہ کی تعلیم مکمل ہوئی اور وہ برسر روزگار ہوگیا تو فوراً میں اسکی شادی کی طرف راغب ہوئی عبداللہ خودبھی ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا کہ خاندان میں مجھ سے بڑوں کی بھی شادی نہیں ہوئی اور آپ کو میری شادی کی جلدی لگی ہوئی ہے؛ مجھے میرے دوست احباب بھی کہہ رہے تھے کہ اتنی جلدی کیا ہے لیکن میں نے سب کو یہی کہا میرے دین کی یہی تعلیم ہے میرا اس پر عمل کرنا لازمی ہے اس طرح عبداللہ کو بھی میں نے قائل کیا ماشاءاللہ آج وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ خوش ہے۔
مختصر یہ کہ نوجوان نسل کو گمراہی اور بدکاری سے بچانے کے لئے نکاح ایک پاکیزہ ڈھال ہے سبحان اللہ اس میں دیر نہیں ہونی چاہیے یہ اللہ اور اسکے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کا حکم بھی ہے۔