افسوس کا مقام ہے کہ مغربی تہذیب کے اثرات ہم پر حاوی ہوتے جارہے ہیں جس کے رنگ آج چاروں طرف نظرآرہیں ہیں اگر کوئی اس کے خلاف آواز اٹھالے تو اسے جاہل گنوار دقیانوسی کے القابات سے نوازا جارہا ہے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس مغربی ثقافت اور رنگ نے خصوصی طور پر ہماری نئی نسل کو اپنی گرفت میں اس طرح لیا ہوا ہے کہ وہ اسے اپنی ترقی اور کامیابی کا زینہ سمجھنے لگے ہیں۔
انہی جدید مغربی رنگوں میں ایک نمایاں رنگ بےحجابی سر فہرست ہے جس کے اثرات معاشرے پر غالب آتے جارہیں ہیں یہ صرف عورت کے لیے ہی تباہی کا باعث نہیں بلکہ پورے معاشرے کو برائی کی لپیٹ میں لینے والا فتنہ ہے۔
مولانا مودودی صاحب نے اپنی کتاب؛ پردہ؛ میں پورپ کی تباہی کی بڑی وجہ عورت کی آزادی بے حیائی اور بے حجابی کو کہا ہے جو سو فیصد درست ہے۔
آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے اللہ رب العزت نے قرآن مجید جو احکامات نازل فرمائے ہیں ان سب کے پیچھے بے پناہ مصلحتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں، آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے اللہ رب العزت کے جن احکامات کے مطابق اسلامی نظام قائم اور نافذ کیا اس کی بدولت ایک اسلامی معاشرہ تشکیل عمل میں آیا جس نے عرب میں جہالت کے اندھیروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، اس پاکیزہ معاشرے نے تاریخ رقم کی جس کی مثال کہیں نظر نہیں آتی لیکن افسوس بے حد افسوس ہم نے اللہ رب العزت کےاحکامات کو پس پشت ڈال دیا ہے آج بھی اگر ہمارے معاشرے میں حیا اور حجاب کی مکمل ترویج اور بے حجابی پرپابندی ہو جائے تو اس معاشرے کی آدھی سے زیادہ گندگی ختم ہو جائے اور حقیقت میں یہ اسلامی ریاست بن جائے۔