سیپ میں موتی

کن سوچوں میں گم ہو اور جب دیکھو اپنے آپ کو بوڑھیوں کی طرح چھپاۓ رکھتی ہو۔ فائزہ نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا۔

میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا وہ جینز شرٹ اور کھلے بالوں میں تھی مجھے لگا کسی نے مجھے پیچھے ماضی میں دھکیل دیا ہو۔

میں اپنے آپ کو بہت دور اور بہت چھوٹی نظر آئی جہاں میں بھی فائزہ کی طرح شوخ و چنچل ہوا کرتی تھی

کیا میں بھی اسی حلیے میں نہیں رہتی تھی جسے فائزہ آج گلے میں دوپٹہ نہ ہونے کے برابر۔ ٹائٹس اور چھوٹی سی شرٹ میں ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں انٹر میں تھی میں پردہ نہیں کرتی تھی دوپٹا لیتی تھی وہ بھی نہ ہونے کے برابر دادی کو میری یہ بات پسند نہیں تھی وہ مجھے سمجھاتی ٹوکتی تھیں میں دادی کی نہیں سنتی تھی

وہ مجھے کہتیں بیٹا نا محرموں کے سامنے ایسے کھلے منہ نہ پھرا کر۔ میں ٹال جاتی اور چڑ کر کہتی دادی جب کبھی بھی آپ کے پاس بیٹھو بس آپ شروع ہو جاتی ہیں۔ لیکن تنہائی میں ہوتی تو دادی کی باتوں پر غور کرتی ایک عجیب سی کیفیت ہوتی دل میں آیک عجیب خلش سی ہوتی شائد پروقار خاندانی ماحول اور پیاری دادی کی نصیحتوں کا اثر تھا۔

ایک دن ہم سہیلیوں نے شاپنگ کی پلاننگ کی اور اس کے لیے ایک بڑے سے مال میں داخل ہوئے ہم خریداری میں مگن تھے سب نے اپنی چیزیں لےلیں شاپنگ کے بعد ہم ائس کریم پالر گئے اور خوب ہلّہ گلّہ کیا سب مردوں کی نظریں ہم پر تھیں مگر ہم اپنے آپ میں مگن۔ ہم سب اپنے گھروں کو جانے کے لیے تیار تھے میں نے رکشہ لیا اور اپنے گھر کی راہ لی راستے میں دو موٹر سائیکل سوار رکشے کا پیچھا کر رہے تھے رکشہ سگنل پر رکا تو موٹر سائیکل سوار میری طرف بڑھے میں ایک دم ڈر گئی آگے پولیس چوکی تھی جس کی وجہ سے موٹر سائیکل سوار بھاگ گئے دس منٹ بعد گھر آ گیا میں نے جلدی سے رکشے والے کو کرایہ دیا اور فورا گھر میں داخل ہوگئی۔

موسم بہت خوشگوار تھا لیکن میرے اندر کا موسم بہت خراب تھا میں پسینے میں شرابور بہت ڈری ہوئی تھی دادی اپنے تخت پر قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھیں۔

زندگی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے،

میں نے سامان وہیں تخت پر رکھا اور دادی کے پاس بیٹھ گئی میں دادی کے گھٹنے پر سر رکھ کر بڑے انہماک سے قرآن کی تلاوت سنتی رہی دادی مجھے اس کا مطلب بھی بتائیں قرآن کے الفاظ جیسے دل کو چھونے لگے تھے۔ دادی نے مسکراکر مجھے دیکھا اور پڑھنے لگیں۔

” اے نبی ﷺ اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گیں اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے،،،، ترجمہ سن کر میں ایک دم چونک گئی۔۔

اور پھر نہ ستائی جائیں گیں، یہ الفاظ سن کر میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکی اور میی دادی کی گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ دادی میری کیفیت دیکھ کر جان گئیں میں کیوں رو رہی ہوں۔ آنسو رم جھم کرتے دادی کا دوپٹہ بھگو رہے تھے دادی مجھے پیار کرتیں میرا ماتھا چومتیں آسودہ مسکراہٹ کے ساتھ دادی نے مجھ سے پوچھا کیا ہوا آمنہ میں دوبارہ دادی کی گود میں سر رکھ کر رو دی اور ساری کہانی سنا دی،،، ندامت کے آنسو ہاں یہ ندامت کے آنسو تو تھے۔

دادی یہ الفاظ تو میرے لیے ہیں دادی ہم کتنی نافرمانیاں کرتے ہیں پھر بھی ہمارا رب ہمیں ہر نعمت عطا کرتا ہے دادی ہمارا رب کتنا رحیم ہے وہ ہم پر اپنی رحمتوں کی بارش کرتا ہے

دادی آج سے میں بھی حجاب کروں گی اللہ کے احکامات کو دل سے تسلیم کروں گی چاہے کچھ بھی ہو جائے میں اپنے رب کو راضی رکھنے کی پوری کوشش کروں گی

دادی اللہ اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے نا وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے وہ مجھ کو معاف کر دے گا نا

دادی اس نے ہمیں ضائع کر دینےکے لیے پیدا نہیں کیا۔

دادی ! ہاں میری بچی اسے تو ایک آنسو کے عوض منایا جاسکتا ہے وہ تو بڑا غفور و رحیم ہے۔

اور میں دادی اس کی گنا گار بندی نا۔

ہاں گناہ تو دھل گئے ان شاءاللہ۔ اس کے لئے تم سیپ کا موتی ہو۔