برطانوی ہند میں غلامی کی دلدل میں بتدریج دھنستی مسلمان قوم کو 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مکمل طور پہ طوقِ غلامی پہنا دیا گیا۔ ڈیسکارٹ (Descartes)، ہوبس (Hobbes)اور ولیئم میور ( Willium Mure) جیسے “معلمانِ حکمت ودانش”کے افکار ہوں یا برہنہ سر وبرہنہ پنڈلی، انگریز سرکارکی بیگمات کی چلت پھرت, سبھی نے اس طوق کو بڑا پرکشش بنا ڈالا تھا۔ وہ جو دنیا کے امام بناکربھیجے گئے آج مکمل بدحالی کے طوفانوں کی زد میں تھے۔ بیچ منجدھار ملت کی نیا کی پتوار تھامنے کوبلاشبہ کئی نابغہء روزگار اشخاص نے جنم لیا مگر۔ انہی میں کوئی ایسابھی تھا جو “متحدہ قومیت” کے فتنہ گر نعرے کی کشش کو محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا،بڑے بڑے مردانِ کار کانگرس کے دامِ ہمرنگِ زمیں میں آچکے تھے۔ اور۔
اور ۔ روسی اشتراکیت کی تبلیغ تو جمعیت العلمائے ہند کے اخبار کے ذریعے کی جا رہی تھی۔ تب کوئی تو ہوتا جسے قدرت نے مسائل کی جڑ تک پہنچنے کی صلاحیت دی ہوتی۔ وہ حالات کا محض جذباتی و سطحی تجزیہ نہ کرتا بلکہ باقاعدہ ان سوالات پہ گہرے غوروحوض کے بعد میدانِ کار میں اترتا۔
۔ اس ملک پر انیسویں صدی میں۔ ہزاروں میل دور سے آئی ہوئی ایک غیر مسلم قوم مسلط ہو گئی تو کیا یہ کوئی اتفاقی سانحہ تھا جو یونہی بے سبب ٹوٹ پڑا ؟ کیا فی الواقع قوم اپنے اندر کمزوریاں اور خرابیاں نہیں پال رہی تھی کہ جن کی سزا آخرکار بیرونی غلامی کی صورت میں ملی؟
یہ بلا جو باہر سے آکر مسلط ہوئی آیا یہ صرف غلامی کی ہی بلا تھی یا وہ اپنے جَلَو میں اخلاق، افکار، تہذیب، مذہب، تمدن، معیشت اور سیاست جیسی دوسری بہت سی بلائیں بھی ساتھ لائی تھی؟
تیسرا سوال یہ کہ ان بلاؤں کے مقابلے میں قومی ردعمل کیا تھا؟۔
پھر ہر خاص وعام نے اعتراف کیا، دیکھا جانچا پرکھا کہ ان سوالات کے تحت مسائل کی جڑ تک پہنچنے والے، مغرب کی ملحدانہ تہذیب کے سیلاب کا رخ پھیرنے والے سید مودودی(رح) نے مغرب کی مرعوبیت کا شکار ہوتی قوم میں ایسی فعال قوت اٹھا کھڑی کی جو اقبال کی اس پکار کی عملی مثال تھی
~ اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی۔
سید مودودی جزئیات وفروعات میں پھنسی قوم کو بڑے مقصد کی خاطر مجتمع ہونے کی دعوت دیتے رہے۔
مگر ان کی دعوت صدابصحرا ثابت ہوئی تو آپ نے جماعت اسلامی کے قیام کااعلان کردیا۔
جدید تعلم یافتہ طبقہ آپ کی طرف کھچا چلا آیا۔
26اگست 1941ء کو جماعتِ اسلامی کی تاسیس ہوئی۔ تاسیسی اجلاس میں مولاناکے علاوہ 74 افراد نے شرکت کی جن میں مایہ ناز اسکالرز، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، تعلیمی ومعاشی اعتبارسے پسماندہ افراد، ڈاکٹرز، وکلاء۔ تقریبا ہر طبقے کے افرادشامل تھے۔
اور پھر۔ وہ جو مولانا(رح) نے فرمایاتھا کہ “یہ شریعت ان بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہواکارخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہوں، جو دریاکی روانی سے لڑنے اور اور اس کے بہاؤ کا رخ بدل دینے کی ہمت رکھتے ہوں، جو صبغت اللہ کو ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اس رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کاحوصلہ رکھتے ہوں”
دنیانے دیکھا کہ اللہ کے فضل سے جماعتِ اسلامی نے ایسے بہادر شیر پیدا کیے۔ پھر وہ درویش صفت مجاہدِعمل میاں طفیل محمد ہوں، یا وہ گمنام کارکن جنھوں نے شدید معاشی پریشانیاں برداشت کرناگواراکیا مگر ناجائز ذریعہء معاش کولات ماردی، اور پھر وہ شیر ڈھاکہ یونیورسٹی کی گراونڈ میں، سرخ سویرے کوشکست دیتا اوراسلامی نظام حیات کی حقانیت پر مہرتصدیق ثبت کرتا سرتاپا لہو میں غسل کرتا عبدالمالک جیساشیر ہو یا مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے درندوں کامقابلہ کرتے اور پاکستان پر جان فدا کرتے “البدر” کے نوخیز شباب ہوں، وہ تپتی دوپہروں میں قریہ قریہ سائیکل پر دعوت محبت وامن دیتا مرِدخدامست ایم این اے ڈاکٹر نذیر احمد شہید ہو، افغانستان وکشمیر کے کوہ و دمن میں تلواروں کی جھنکار پہ رقص کرتے لہوکی سرخ خلعت پہننے والے ہزاروں شہداء ہوں یا جون 1995ء کی جھلستی دوپہر میں اپنے 5 بیٹوں کو پی پی پی کے ریاستی جبر کا نشانہ بنتے اور پھرگلابی کفن پہنتے دیکھتا قاضی حسین احمد۔ اور۔ آج۔ کج کلاہی کی انوکھی ادا کے ساتھ میدان جہد میں چوبیس گھنٹے متحرک ، اک مزدور کابیٹا۔ سراج الحق ہو۔ اور۔ یا اسلامی نظریاتی مملکت کی پارلیمنٹ پہ قابض کرپٹ ٹولے کے بیچ چٹان کی طرح کھڑے مردانِ آہن سینیٹر مشتاق احمد، عبدالاکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمان ہوں۔
یا کبھی چولستان کے صحرا میں تو کبھی بپھرے پانیوں کے درمیان، اورکبھی وباؤں کے ماحول کے اندر ہمت واستقامت کی داستان رقم کرتے “الخدمت” کے پیارے جوان ہوں۔
یہ سب سید (رح) کے تیارکردہ بہادر شیر نہیں کیا؟
ان سب نے سارے رنگ چھوڑ دیے بس اک صبغت اللہ ان کو بھا گیا۔
بات کی جائے حلقہ خواتین کی تو عائشہ (رض) و خدیجہ(رض) وفاطمہ(رض) کو اپنا آئیڈیل قرار دیتی خواتین بھی جماعت اسلامی کی وہ قوت ہیں جن کا کارنامہ بہرحال نہ صرف قوم کے لیے بلکہ امت کے لیے مشعل راہ ہے۔
کس کس کا نام لوں۔ محترمہ قمر جلیل صاحبہ سے لے کر ڈاکٹر رخسانہ جبین تک ہر کوئی اپنی مثال آپ۔
اور پارلیمان کے اندر اعلٰی تعلیم یافتہ، اپنی روایات پہ پوری طرح کاربند ملک کے وقار کی علامت خواتین اگر ہیں تو صرف جماعت اسلامی کی خواتین ہیں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، عائشہ منور، عائشہ سید۔۔
تعصب کاچشمہ اتار کے ملت کی ان بیٹیوں کا کردار دیکھو گے تو خراج تحسین پیش کیے بنا نہیں رہو گے۔
اور اس وقت خواتین کی قیادت کی ذمے داری پہ فائز۔ ایک خوبصورت کردار۔ ہمت وتحرک کا استعارہ۔ دردانہ صدیقی۔
قارئین! اعتراف اور خراج تحسین کی اس سچی داستان کا دوسرا کنارہ بہرحال کہیں نہیں ہے۔
اب میں تھوڑا سا تذکرہ کرنا چاہوں گی اس حقیقت کا کہ بوجوہ کچھ کمزوریاں بھی جماعت میں در آئی ہیں گو کہ تدارک کی کوشش جاری رہتی ہے۔ تاہم ہر رکن کو اپنی جگہ حکمت کے ساتھ چیک رکھنا ہوگاکہ۔
میدان عمل میں میں بس ادنٰی کارکن ہوں مجھے کام کرنا ہے تو نمود ونمائش کی تمنا کے بغیر۔ کہیں بھی “انا” کو آڑے نہیں آنے دینا۔ یقین کیجیے آپ کی ایک لمحے کی خطا جماعت کے لیے صدیوں کی سزا بن سکتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ تاریخ کادھارا بدلنے میں گمنام کارکنوں کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے لہٰذا مجھے جوبھی کام کرنا ہے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے کرنا ہے اپنے نام کی تشہیر نہیں، جماعت کی دعوت اہم ہے۔
ایک اور مسئلہ نوجوانوں کی نظریاتی تربیت کا ہے۔ فتنوں پہ فتنے، اشرافیہ کے پیدا کردہ مسائل، سوشل میڈیاکی خرافات ۔ اور ان سب کے درمیان کھڑا یہ بے تاب ومضطرب شباب۔
یہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ مگر۔
شائد میدان عمل میں نعروں کی کچھ بہتات ہوگئی ہے ۔ اک سیدھی رہگزر کے اندر سے کئی پگڈنڈیاں بن گئی ہیں۔ چوک بھی۔ چوراہے بھی۔
خدارا اسے تنہا نہیں چھوڑیے۔
یہ نوجوان سید مودودی (رح) کا لٹریچر ہاتھ میں تھامے کسی کامنتظر ہے جو اسے صبغت اللہ کامطلب سمجھا دے، اسے شریعت کے مقتضیات کی وہ تفہیم دے کہ یہ بھی اپنے پیشرووں کی طرح ہوا کارخ بدل دے، دریا کی روانی سے لڑ جائے۔
آج جماعت اسلامی کا 82 واں یوم تاسیس ہے۔ اس موقع پہ میں اپنی ہرسطح کی قیادت (مردانہ و خواتین) سے التماس کروں گی کہ اس نوجوان کو تنہا نہیں چھوڑئیے گا شعبہ جات کی بہتات، نعروں کی گرج اور احتجاجی پروگرامات کے دوران ہی اس نوجوان کے لیے۔ پاک وطن کے اس مستقبل کے لیے، صبغت اللہ میں رنگ جانے کا تربیتی لایحہ عمل آپ نے وضع کرنا ہے۔