یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرتی زندگی میں جہاں بدنی و جسمانی تقاضوں کی تکمیل کے لیے، کسان سے لے کر ڈاکٹر اور انجینئر تک کی ضرورت پڑتی ہے وہاں روحانی تقاضوں کی تکمیل کے لیے دین کے خدمت گاروں کی اہمیت کو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ رب العزت کے عطا کردہ نظامِ حیات اور دینِ محمدی کی تبلیغ و ارشاد پر جو لوگ متعین ہوتے ہیں اُن کا چناؤ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے ہوتا ہے۔ خدمتِ دین کی توفیق محض اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور اُس کے احسان کی وجہ سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ جس شخص سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اسے اپنے دین کی خدمت کے لیے منتخب فرما لیتا ہے۔
اس حقیقت سے کسی کو مفر نہیں کہ ہر نیکی کی توفیق اللہ رب العزت ہی عطا فرماتا ہے ورنہ ازخود کوئی فرد بشر کسی نیک کام کرنے کا مختار نہیں۔ لہٰذا اللہ کے دین کی خاطر جو بھی جس طرح پر اس کے استحکام اور اس کی اقامت و احیاء کے لئے تگ و دو اور مجاہدہ کرتا ہے اس کو یہ توفیق اور استطاعت و صلاحیت بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی دینے والا ہے کسی کو اگر اس نے اس منصب عظمیٰ پر فائز کر رکھا ہے یا جس سے بھی آج تک اس ذات بے ہمتا نے اپنے دین کا کام لیا ہے۔ اس خدمت دین میں اس شخص کا ذاتی کمال اس کی اس خدمت کا باعث نہیں بنا بلکہ محض لطف خداوندی اور احسان ایزدی سے اس کا چناؤ ہو گیا۔
اللہ کا دین کسی طرح بھی کسی شخص کا محتاج نہیں اور نہ ہی اسے کسی مخصوص طبقے، گروہ یا جماعت کی محتاجی ہے۔ کوئی شخص یا جماعت دین الٰہی کی جو بھی خدمت کرتی ہے اس کی توفیق اور چناؤ بھی محض اللہ کا فضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی سورۃ المائدہ کی آیت کریمہ میں بندوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
‘’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ تعالیٰ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا۔ جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہو گا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔‘‘ بانی مکتب تعلیم القرآن حضرت مفتی حنیف عبد المجید صاحب اس آیت کریمہ کے نفس مضمون سے استدلال کر کے فرمانے لگے کہ دین کی خدمت سے محروم ہونے کے بڑے اسباب چار ہیں :
1:تکبر کرنا 2:حسد کرنا 3:لڑائی جھگڑا کرنا 4:آنکھوں کے گناہوں میں مبتلا ہونا
دین کی خدمت سے محرومی کا سب سے بڑا سبب وہ کبر ہے کہ ” ہم چوں دیگرے نیست” . یعنی کہ مجھ جیسا کوئی نہیں.
تکبر کا معنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسرے کو حقیر جاننا ہے۔ کتاب وسنت میں تکبر کرنے والے کے لیے ‘متکبر’ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔متکبرین کے بارے نصوص میں بہت شدید وعید آئی ہے ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:”وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی اپنی بڑائی ہو۔”
مثلاً جاہ وجلال کے ذریعے تکبر کرنا، اپنے پیروکاروں کی کثرت کے ذریعے تکبر کرناجیسا کہ علمایا صوفیا یاگدی نشینوں یاخطباء یا واعظین یا مذہبی و سیاسی جماعتوں یا انقلابی تحریکوں کے قائدین میں ہوتا ہے۔ اسی طرح علم کے ذریعے تکبر کرنا
اپنے علم پر تکبر کرناجیسا کہ بعض علماء میں یہ مرض پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں ایک عالم دین اپنے علاوہ علماء کو اپنے سے حقیر سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا جانتا ہے۔
اہل علم حضرات نے تکبر کے تین درجات بیان کیے ہیں :
پہلا درجہ :دل میں اپنی بڑائی ہو اور ظاہر میں تواضع وانکساری ہو۔
دوسرا درجہ: تکبر کا دوسرا درجہ دل کے بعد اپنے افعال واعمال میں تکبر کا اظہار کرناہے۔
تیسرا درجہ: تکبر کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل اور عمل سے بڑھ کر ا پنی زبان سے فخر کا اظہار کرے مثلاً اپنے تزکیہ نفس یا نیک ہونے کے دعوے کرے۔بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے وہ باتوں باتوں میں ہر کسی کو اپنے تہجد گزار ہونے، نیک ہونے، بڑا عالم دین ہونے، تعلیمی اسناد کی تاریخ سنانے، عظیم محقق ہونے، پروفیسر ہونے یا دین کا عظیم خادم بتلانے کے لیے بے چین ومضطرب ہوتے ہیں۔بلاشبہ اس قسم کے اقوال میں تکبر قولی کی واضح صورت جھلکتی نظر آتی ہے اور اگر کسی شخص میں یہ عادت ہو تو اسے اپنے اپنی باطنی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ تکبر کیوں پیدا ہوتا ہے؟ یا اس کے اسباب کیا ہیں؟
1۔ تکبر کے اسباب میں سے اہل علم نے حسد، بغض، کینہ ، عجب اور ریا کاری کا تذکرہ کیا ہے۔ جب کوئی شخص مال، علم، حسن وجمال یا مقام ومرتبے میں دوسرے سے حسد محسوس کرتا ہے تو عموماً اس پر تکبر کے ذریعے بڑائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
2۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی دوسرے سے اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھتا ہے تو یہ بھی اس کے تکبر کا سبب بن جاتے ہیں۔
3۔ اپنے نفس کے عشق میں مبتلا ہونا یعنی خود پسندی اور عجب بھی تکبر کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔
4۔ اسی طرح ریاکاری بھی تکبر کے اسباب میں داخل ہے۔
تکبر کا علمی علاج یوں کیاجا سکتا ہے کہ انسان جب اللہ کی دی ہوئی کسی نعمت یا صفت یا کمال پر اپنے نفس میں بڑائی محسوس کرے تو یہ سوچ بار بار پیدا کرے:
1: میرے اندر کا یہ کمال حق سبحانہ وتعالیٰ کا پیدا کردہ ہے یعنی عطائی ہے اور اس کے حصول میں میرا کوئی ذاتی عمل دخل نہیں ہے۔
2:اسی طرح دو دعاؤں کا بھی اہتمام کریں:
اللھم اجعلنی فی عینی صغیرا وجعلنی فی الناس کبیرا.
اللھم اغننی شر نفسی.
اور تکبر کا عملی اور بہترین علاج یہ ہے کہ انسان جس کو اپنے نفس سے چھوٹا سمجھے، اس کے ساتھ بیٹھے ، کھائے، پئے، گفتگو کرے، دوستی کرے،اس کا احترام کرے، اس کے بارے تحسین کے کلمات کہے اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔مثلاً ایک امیر اپنے تکبر کو غربا میں بیٹھ کر اور ایک عالم دین اپنے تکبر کو طلبا میں بیٹھ کردور کر سکتا ہے۔
اسی طرح تکبر کے ساتھ باقی تین اسباب سے ہمیں بچنا چاہیے یعنی حسد کی بیماری سے، لڑائی جھگڑے کی الجھنوں سے اور آنکھوں کے گناہوں سے، ان سب گناہوں سے بچنے کے لیے ہمارے پیارے نبی نے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ایک دعا کا اہتمام کرنے کی تلقین کی ہے فرمایا :
اَللَّهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِيْ مِنَ النِّفَاقِ وَ عَمَلِيْ مِنَ الرِّيَاءِ وَ لِسَانِيْ مِنَ الْكَذِبِ وَ عَيْنِيْ مِنَ الْخِيَانَةِ ، فَإِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَ مَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ‘‘
ترجمہ: ’’یا اللہ! میرے دل کو نفاق سے پاک کردے، اور میرے عمل کو ریا سے، اور میری زبان کو جھوٹ سے، اور میری آنکھ کو خیانت سے، تجھ پر تو روشن ہیں آنکھوں کی چوریاں بھی، اور جو کچھ دل چھپائے رکھتے ہیں وہ بھی۔‘‘