یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں مزدور طبقہ کا اہم کردار ہوتا ہے، معاشرتی زندگی میں یوں تو ہر شخص مزدور ہے لیکن خون پسینہ بہا کر زلفِ روزگار سلجھانے والا ‘ اپنی محنت سے جوئے شیر لانے والا ‘ سنگلاخ چٹانیں توڑنے والا ‘ قافلے لٹا کر منزل کو سینے سے لگانے والا اور دھوپ میں جل کر دوسروں کو چھائوں بخشنے والا، اپنی خوشیاں دوسروں پر قربان کرنے والا حقیقی مزدور کہلاتا ہے۔ اس کی اہمیت مسلمہ حقیقت ہے۔
کوئی بھی معاشرہ دست کار کے تعاون کے بغیر خوش حال نہیں ہوسکتا۔ دنیا کے تمام مذاہب میں محنت کرنے کی تلقین کی گئی ہے لیکن اسلام نے مزدور کی عظمت کا اعتراف جس انداز سے کیا ہے، وہ عالمگیر حقیقت ہے۔ قرآن و حدیث سے ظاہر ہوتاہے ” محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔ ” مزید کہا گیا ہے ” اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو رائیگاں جانے نہیں دیت۔ ” یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ محنت کا پھل ضرور ملتاہے۔ اسلام دولت کمانے کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ مادیت میں گم ہوکر روحانیت کو بھول جانے کا مخالف ہے۔ اسلام میں مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی اقدار کی ترقی اور احیاء لازم و ملزوم ہیں۔
تاریخ عالم گواہ ہے کہ وہی معاشرہ خوش حال اور ترقی کی منازل احسن طریقے سے طے کرسکتا ہے جہاں کے مزدورکومحنت کے عوض محبت حاصل ہو۔ محبت کی خاطر یہی مزدورپہاڑوں سے جوئے شیر بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مزدوروں کی مختلف اقسام ہیں ایک وہ جو دفاتر میں کام کرتے ہیں’ کچھ وہ جو کارخانوں میں فیکٹریوں اور ملوں میں کام کرتے ہیں اور ایک وہ طبقہ جو عمارات اور کھدائی کا کام کرتے ہیں۔ اگر مزدور اپنے کام دلجمعی اور لگن سے کریں تو صنعتی ترقی میں میں چار چاند لگ جائیں۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مزدوروں کو اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات
ڈاکٹر علامہ اقبال سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دار مزدوروں کی محنت سے پلتاہے۔ مزدور کے آنسوؤں سے سرمایہ دار کے گھر میں چراغاں ہوتاہے۔ مزدور کے ناتواں کندھوں پر اینٹوں کا بوجھ ہوتاہے تو امیر کا محل تیار ہوتاہے۔ محلاتِ شاہی، تاریخی مقامات، آسمان سے باتیں کرتی عمارات، عجائباتِ عالم، بل کھاتی طویل شاہرائیں، بلند و بالا مینار اور اِسی طرح کی تعمیرات دیکھ کر مزدور کی محنت کا احساس دامن گیر ہوتاہے۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ معمولی اجرت پر غریب کا خون پسینہ بہایا جاتاہے۔ بازارِ محنت میں غریب کو دل کھول کر لوٹا جاتاہے۔ مزدور دن بھرکلفت برداشت کرتاہے۔ اقبال مزدور کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو کھیتی بھی تو باراں بھی تو حاصل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کیا ہے کہ غارت گر باطل بھی تو
لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو شدید مالی بحران اور دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے مزدور طبقے کی زندگی میں شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں، بجلی و گیس کے بلوں، اشیاء خوردونوش اور ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے جبکہ مزدور کے ذرائع آمدن اور بنیادی تنخواہ کے اضافے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اور محکمہ لیبر کی عدم دلچسپی سے مزدور طبقہ کی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم از کم ماہانہ اجرت 32 ہزار پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اور نجی اداروں کے مالکان اس حکومتی اعلان کو وسائل آمدن کا رونا رو کر ہر دفعہ ٹال مٹول کر کے ٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے لگا کر مزدور طبقہ کے مطالبات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، جس کی وجہ سے مزدور طبقہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
مزدور اپنے مسائل کے حل اور ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے اپنے نو عمر بچوں کو بھی ملازمت پہ لگا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ بچے بازاروں، بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر جوتے پالش کرتے، چپس بیچتے اور اخبار فروشی کرتے دکھائی دیتے ہیں، اور کچھ دکانوں، گھروں، گیراجوں، ہوٹلوں اور سبزی و فروٹ کے ٹھیلوں پر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، کہنے کو تو لیبرلاء نافذ ہے مگر عمل کرتا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مہنگائی میں جس قدر اضافہ ہو مزدوروں کی بنیادی تنخواہ بھی اس نسبت سے ہی بڑھائی جائے تاکہ مزدور طبقہ اپنے مسائل بہتر طریقے سے حل کرنے کے قابل ہو اور اپنے بچوں کو مزدوری پر بھیجنے کی بجائے اسکول یا مدرسہ میں بھیج کر دین و دنیا کی بنیادی تعلیم دیں سکیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے ہمارا مطالبہ ہے کہ مزدور طبقے کے حقوق دلوانے میں لیبر لاء پر سختی سے عمل درآمد کروائیں، تاکہ مزدور طبقے کے حقوق کے استحصال اور جبری مشقت کو روکنے میں مدد بھی مل سکے اور مزدور طبقہ خوشحالی کی زندگی گزار سکیں۔