ارسطو کا قول ہے کہ” انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ” یہ بات تب تک ٹھیک تصور کی جائے گی جب تک انسان اپناذہنی توازن کھو نہ دے، انسان کا ذہنی توازن معاشرے سے الگ رہنا یا پھر میل جول کم کرنے سے بگڑتا ہے اور اس کو عام الفاظ میں ہم نفسیاتی مریض یا پھر پاگل جسے سائیکو کہا جاتا ہے بولتے ہیں یہ ذہنی بگاڑ تب سے شروع ہوتا جب انسان کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو یہاں سے اسکا نفسیاتی کھیل شروع ہوجاتا ہے جس سے انسان اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے یہ شخص اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ حاصل کرنے کیلئے لوگوں کو ڈرانے دھمکانے لگ جاتا ہے اب وہ ایک نارمل انسان نہیں بلکہ نفسیاتی مریض بن چکا ہوتا ہے۔
عہدہ چاہئے سرکاری ادارے کا ہو یا پھرن نجی ادارے کا اس سے وہ شخص اپنے ارد گرد کے دوسرے لوگوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتا ہے اور اپنے آپ کو ایک اعلیٰ درجہ دیتا ہے اس کا تہذیب و تمدن اور ادب و آداب سے کوئی واسطہ نہیں رہتا اب اس کو مرد و عورت سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں رہتا کیوں کہ وہ ذہنی غلام بن چکا ہو تا ہے اس شخص سے فضول بحث کرنے کی بجائے کنارہ کشی اختیار کرنا بہتر تصور کیا جاتا ہے۔
اس قول کے دوسرے پہلو کو دیکھا جائے تو ہمیں یہ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان واقعی میں بہت کچھ کر گزرنے کی طاقت رکھتا ہے انسان نے سائنسی علوم کو پڑھ کر جدید ترین ٹیکنا لوجی بنائی جس سے انسانی معاشرے نے بہت ترقی حاصل کی ہے چاند پر قدم رکھنا ایک خواب تھا لیکن سائنس کی بدولت یہ خواب حقیقت میں بدل گیا حالات حاضر میں انسان نے اپنے کئی روپ دھار رکھے ہیں ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اچھا کر کے معاشرے میں مقام پیدا کرے بہت خوشی کی بات ہے اور اس سے معاشرے میں سدھار پیدا ہوگا، اسی خواہش کو دل میں لے کر انسان علم کی طرف مرکوز ہوتا نظر آتا ہے۔
حدیث نبوی ہے کہ “علم حاصل کرو چاہیے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑ جائے” علم حاصل کرنے کا مقصد انسان کی تربیت ہے اگر انسانی نشونما، رہن سہن، بول چال کو پر کھنا ہے تو اس کے اخلاق دیکھو آپ کو معلوم ہو جائے گا انسان کے روپ میں انسان ہے یا کوئی بدنما جانور، تربیت ہمیشہ بچپن سے ہوتی ہے لیکن شباب عالم میں مست انسان کی تربیت کا اندازہ اس کے رہن سہن، بول چال سے نہیں بلکہ اس کی زبان سے نکلےالفاظ سے لگایا جاتا ہے انسانی زبان تربیت کے ساتھ اس کی ذہنی غلامی یا اعلیٰ حسن پر کھنے میں مدد دیتی ہے۔
تو جناب اب چلتے ہیں لاہور کی جانب جہاں مشتاق احمد یوسفی صاحب انسانی تربیت کے حوالے سے ایک سبق میں یونیورسٹی کے طالب علموں پر موجود چار گروپس کے بارے میں لکھتے ہیں جس میں پہلا گروپ جمالی قسم کا ہوتا ہے، دوسرا گروپ خیالی، تیسرا کمالی جبکہ چوتھا گروپ تربیت یافتہ طالب علموں کا ہے، آج ہم صرف خیالی گروپ کی بات کریں گےجس کا تربیت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں بظاہر طالب علم لیکن ہر وقت عجیب و غریب خیالوں میں گم رہتے ہیں اور اپنے آپ کو دوسروں پر فوقیت دیتے ہیں وہ اس بدنما خیال میں گم رہتے ہیں کہ ہر کام میں ماہر ہیں ،لیکن غرض اس بات کی ہے کہ اگر آپ تربیت گاہ میں رہتے ہوئے تربیت حاصل نہ کر سکے تو اس میں قصور آپ کے اساتذہ اور دنیا کا نہیں بلکہ آپکی ذہنی غلامی کا ہے جس میں آپ بری طرح جکڑےجاچکے ہیں۔
تو خیالی گروپ سے ایک بڑی مثال جناب شیخ چلی صاحب ہیں جو صرف خواب دیکھا کرتے تھے جس کی کوئی تعبیر نہیں تھی ان کے خواب میں اور ان طلبہ کے خواب میں ایک فرق لازمی ہے کہ جناب چلی ان پڑھ تھے اور امیر ہونے کے خواب دیکھا کرتےتھے لیکن ان طلبہ میں کچھ نوکری پیشہ افراد ہیں اور ان کا خواب اپنے عہدے کا بھرم و رعب جمانا ہے، ان کی ہروقت کی لڑائی اور بد اخلاقی زبان کے استعمال پر باقی تمام طلبہ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں ان کو اس بات کا زرہ برابر بھی خیال نہیں ہوتا کہ ان کے اس رویے سے باقی کتنا پریشان ہوتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں ہم نوکری والے افراد ہیں جیسا چاہیں گے ویسا ہو گا مگر بد قسمتی سے یہ خواب خواب ہی ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں تربیت یافتہ طلبہ کا گروپ اپنے اخلاق کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ تر خاموشی اختیار کرتے اور ان کو برداشت کرتے ہیں لیکن جب ان کی بدسلوکی حد سے تجاوز کرجاتی ہے تو پھر خاموشی توڑ کر لڑائی جھگڑا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں پھر وہ یہ سوچتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں کہ یہاں ان سے کیا لڑنا ان کا ادب سے واسطہ ہی نہیں ان کی تو مثال اس بپھرے کتے کی مانند ہے جو راستے میں آتے جاتے ہر انسان کو کاٹتا رہتا ہے۔
رانزویا برٹ جو تاریخی فلاسفرہے اس نے کیا خوب لکھا اگر منزل و مقصود تک پہنچنا ہے تو بہت کٹھن اور دشوار راستوں سے جانا پڑے گا اس راستے میں آپ کو ہزاروں کتے ملیں گیں لیکن آپ ان کو ٹکڑے ڈال کر نکل جانا نہیں تو ان کے چنگل میں پھنس کر راستہ بھٹک جاؤ گے۔
نوکری ایک ذہنی غلامی ہے اور اگر سرکاری نوکری ہے توبھیا پھر ذہنی غلامی میں جکڑا ہوا انسان ہے جو صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے خواب دیکھیں اس پر پابندی نہیں ہے، سرکاری نوکری میں بیٹھا شخص اس حد تک ذہنی غلام بن جاتا ہے کہ اس کو باقی تمام انسان اپنے تابع نظر آتے ہیں جبکہ حقیقت کچھ اور ہے وہ یہ سمجھتا ہے عوام اس کے غلام ہیں حالانکہ وہ خود ایک غلام ہو تا ہےوہ عوام کو آنکھیں دکھا رہا ہوتا ہے جن کے ٹکڑوں پر وہ خود پل رہا ہوتا ہے ،خیالی پلاؤ اس کے ذہن میں بیٹھ جاتا ہے اس کی نہ تو کوئی مثال ہے اور نہ ہی علاج اس لیے ان سے فضول بحث کرنے کی بجائے اپنا کام کرو اور چلتے بنو۔
اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ان نوکری پیشہ افراد سے الجھنے کی بجائے اپنا قیمتی وقت ضائع نا کریں اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھیں ان کی ذہنی غلامی سے دور رہیں تا کہ آپ اپنی زندگی سکون سے گزاریں آپ ان کے فضول جھنجھٹ سے بچ کر اپنا قیمتی وقت ضائع نا کریں۔