بحیثیت مسلمان اگرچہ ہم سب زبانی طور تو دعویٰ اللہ اکبر ہی کا کرتے ہیں کہ ہاں بے شک اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ لیکن ہم تسلیم کریں یا نہ کریں مگر حقیقت میں ہم اسکی نفی بھی کر رہے ہوتے ہیں اپنے دل سے بھی اور عمل سے بھی، کسی نہ کسی رنگ میں۔ کسی نہ کسی انداز میں
مثلاً خود سوچیں۔ جائزہ لیں۔ عام طور پر، کس کس کا مقام ومرتبہ، اللہ سے بھی بڑھ کر کس کس کی محبت و رغبت، کس کس کا رعب و دبدبہ ہمارے دلوں پر براجمان رہتا ہے۔ حاوی اور غالب ہو کر۔ (اللہ سے بھی بڑھ کر )؟ نعوذباللہ.
اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ اکثر اوقات، یا بسا اوقات، بڑے محسوس یا غیر محسوس انداز میں۔ ہم کہیں نہ کہیں ہم اللہ اکبر سے انحراف کرتے ہوئے اللہ بزرگ وبرتر کی تعلیمات و احکامات سے صرفِ نظر، خود کو عقل کل نہیں سمجھ رہے ہوتے؟ کبر اور خودپسندی میں مبتلا نہیں ہوتے؟ اپنی من مانیاں نہیں کر رہے ہوتے؟۔ اپنے آپ کو مختار کل نہیں سمجھ رہے ہوتے؟
خود سوچیں کیا یہ مذاق نہیں لگتا کہ دن میں ناجانے کتنے بیشمار اوقات میں اللہ اکبر بھی کہیں اپنے اللہ کے اعلیٰ و برتر ہونے کا اعلان بھی کریں اور بار بار کریں مگر عملاً ترجیح اول بنائیں اللہ سے بھی بڑھ کر اپنے نفس کو، لوگوں کو، دنیا اور متاع دنیا کو۔
اپنے دل کی وابستگی، رغبت اور محبت میں اپنی توجہ میں، یاد میں، احساس میں، اپنے وقت، مال اور صلاحیتوں کے استعمال میں۔ اپنے ذرائع و وسائل کی کھپت میں۔
آخر یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ اللہ اکبر بھی کہیں مگر دوسروں کی باتوں کو اللہ کی باتوں سے بڑھ کر اور زیادہ اہمیت کے حامل بھی ٹھہرائیں کہ فلاں اسکالر نے یہ کہا، فلاں کا یہ قول ہے، فلاں نے یہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس میں حرج کوئی نہیں مگر انکی بات یا conclusion کو فرمان الٰہی سے زیادہ weight age دینا۔ ان کو اللہ کے حکم سے بھی بڑھ کر بڑی دلیل کے طور پر پیش کرنا۔ ان پر زیادہ اعتماد اور یقین رکھنا۔ یہ اللہ اکبر کی نفی نہیں تو اور کیا ہے؟
بے شک یہ مذاق ہی تو ہے کہ اللہ اکبر بھی کہیں، اپنے اللہ کو اعلیٰ وبرتر بھی گردانیں مگر دنیاوی زندگی اور اس کی حقیقتوں کو اللہ کے بتائے ہوئے فریم ورک میں دیکھنے اور سمجھنے کی بجائے دوسروں کے نظریات اور فلسفوں کی روشنی میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش بھی کریں۔
اللہ اکبر بھی کہیں اور اللہ کے قوانین اور نظام زندگی کی بجائے دوسروں کے قوانین زندگی اور نظام زندگی سے مرغوب ہوں۔ انہیں فوقیت دیں اور ان کے تحت زندگی گزارنے کو ترجیح دیں جیسے دارالکفر میں جانے اور بسنے کے لیے ہمارے ہاں لوگ کیا کیا پاپڑ نہیں بیلتے، کیا کیا جتن نہیں کرتے۔
خود سوچیں۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے یہ کہ اپنے اللہ کو اللہ اکبر بھی کہیں اور پھر اسی اپنے اللہ کے باغی اور سرکش لوگوں کے مقابلے میں خود کو کمزور، نکو اور کمتر بھی سمجھیں۔ بلکہ بنائیں۔ بجائے اللہ کے حکم کے مصداق اپنے آپ کو ان کے مقابلے کے لیے تیار کرنے کے اخلاقی، روحانی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے۔ اب یہ اللہ اکبر کی نفی نہیں تو اور کیا ہے؟
آخر خود سوچیں کہ وہ جن کا اللہ “اللہ اکبر” ہو کیا انہیں یہ جچتا ہے، یہ زیب دیتا ہے کہ وہ باطل قوتوں کی نام نہاد جاہ و عظمت اور شان وشوکت کو دیکھ کر نفسیاتی طور پر حسرت و مرعوبیت کا شکار ہو جائیں۔ ڈر سہم کر ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھیں جبکہ قرآن تو برملا کہتا ہے سورہ النساء میں کہ نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان لوگوں کو دے رکھی ہے یعنی اللہ کے باغی لوگوں کو، پھر اللہ کہتا ہے وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے۔ بلکہ اللہ تو دو ٹوک الفاظ میں اپنے بندوں کو یہ ضمانت بھی دیتا ہے وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ یعنی شرط صرف پکی مسلمانیت کی ہے۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ جس دل پر اللہ اکبر کی مہر لگی ہو، جس دل میں اللہ کی عظمت و بڑائی کا نقش بیٹھا ہو، وہ دل پھر دنیا اور دنیا والوں سے بے نیازی اور استغناء کی دولت سے مالا مال ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا یاد رکھیں یہ اللہ اکبر کا لازمی ثمرہ ہے۔ گویا
ہر دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
اب ایسی لذت آشنائی اللہ کرے ہمارے بھی نصیب ہو کبھی. آمین ثم آمین