حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت بلند مرتبہ نبی گزرے ہیں آپ کے والد کا نام تارخ ابن نحور تھا۔ آپ علیہ السلام وہ پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ نے خلیل اللہ کہہ کر پکارا۔ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کئی بار مشکل ترین آزمائشوں سے گزارا اور ہر بار آپ علیہ السلام اللہ کے فضل سے آزمائشوں میں پورا اترے اور کامیابی آپ کا مقدر ہوئی۔
آپ علیہ السلام جس وقت دنیا میں تشریف لائے اس وقت بت پرستی کا بڑا زور تھا۔ آپ علیہ السلام بت پرستوں کی قوم کو ایک اللہ کی طرف بلاتے اور انہیں توحید کے راستے پر چلنے کی تلقین کرتے مگر ان پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پہلا امتحان اس وقت لیا جب نمرود نے آپ کو آگ میں پھینکا اور وہ آگ اللہ کے حکم سے ٹھنڈی ہوگئی۔ اس آزمائش کے بعد اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سنسان ویرانے میں چھوڑ آئیں۔ اس ویرانے میں پانی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام پیاس کے مارے بلکنے، مچلنے اور ایڑیاں رگڑنے لگے وہاں سے چشمہ نمودار ہوا جواب آب زمزم کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے محبت کی مثال قائم کر دی اور اللہ کی رضا کی خاطر اپنی بیوی اور بچے کو ویرانے میں چھوڑ آئے جہاں نہ کوئی آبادی تھی نہ آدم زاد آپ علیہ السلام نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا اور مالک عظیم سے وفا کا حق ادا کر دیا تھا۔
آزمائشوں کا یہ سلسلہ یہیں بند نہیں ہوا بلکہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اور بھی امتحان لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ بیٹے کو قربان کر رہے ہیں تو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے اس خواب کا ذکر کیا حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم کو سر تسلیم خم کرلیا اور اتنی بڑی آزمائش کو بردباری اور خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کرنے کے لیے خود کو پیش کردیا چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی اور بیٹے کے گلے پر چھری چلائی آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیٹے کی جگہ ایک مینڈھا ذبح ہے اور اسماعیل علیہ السلام کھڑے مسکرا رہے ہیں باری تعالیٰ کا حکم ہوا “آج ابراہیم علیہ السلام نے وفا کا حق ادا کر دیا اور اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم نیکوں کو ان کی نیکی کا اس طرح صلہ دیا کرتے ہیں”۔
رہ وفا میں لٹا کر متاع قلب و جگر
کیا ہے تیری محبت کا حق ادا میں نے
آپ علیہ السلام اس عہد بندگی کی وفا کے بدلے مسلم جیسے عظیم لقب سے پکارے جاتے ہیں۔
اللہ تعالٰی اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور انہیں آزمائشوں میں ڈالتا ہے جیسا کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ “اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے اور(اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں”۔
آج جو مصیبتیں اور آزمائشیں ہم پر آتی ہیں ہمیں چاہئے کہ ان پر صبر کریں اور اللہ کی رضا میں راضی رہیں کیونکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اس کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں اللہ بھی ان سے راضی اور خوش ہوتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے تو اللہ سے اپنی وفا کا حق ادا کردیا اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس مالک حقیقی سے اپنی وفا کا حق کیسے ادا کرتے ہیں۔
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ