قربانی قبول ہوگی؟

قربانی عربی زبان کے لفظ ” قُرب ” سے ہے، جس کا مطلب کسی شے کے نزدیک ہونا۔  قُرب، دوری کا متضاد ہے۔ قربان، قرب  سے مبالغے کا صیغہ ہے.  

قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، شرع میں قربانی یعنی جانور ذبح کرنے کا نام ہے.

ہرسال 10 ذوالحجہ کو اللہ تعالی کے حکم پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپناتے ہوئے آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد میں ہم اپنے حلال طیب مال سے پاکیزہ جانوروں کو اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں.

قرآن پاک میں خود رب العالمین نے ارشاد فرمایا،،

خدا تک نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون۔ بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اسی طرح خدا نے ان کو تمہارا مسخر کر دیا ہے تاکہ اس بات کے بدلے کہ اس نے تم کو ہدایت بخشی ہے اسے بزرگی سے یاد کرو۔ اور (اے پیغمبر) نیکوکاروں کو خوشخبری سنا دو،،،،

اسی طرح ہمارے پیارے نبی رحمت العالمین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے نے ارشاد فرمایا،،،

قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ ہو، اور قیامّت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے، لہذا تم اس کی وجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دلوں کو خوش کرو۔ (مشکوٰة المصابیح)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری قربانی قبول ہوتی بھی ہے یا نہیں؟

جیسے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں نے اللہ کی راہ میں قربانی پیش کی

اے نبی مکرم ﷺ آپ ان لوگوں کو آدم  علیہ السلام  کے دو بیٹوں  ہابیل و قابیل  کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ جب دونوں نے  اللہ کے حضور ایک ایک  قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک ( ہابیل ) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے ( قابیل ) سے قبول نہ کی گئی تو اس ( قابیل ) نے ہابیل سے حسداً و انتقاماً  کہا،  میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا، اس ( ہابیل ) نے ( جواباً ) کہا، بیشک اللہ پرہیزگاروں سے ہی ( نیاز ) قبول فرماتا ہے.

قربان جائیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت پر کہ جو ہمیں  چودہ سو سال پہلے ہمارے  ذہن میں آج اٹھنے والے  ہر سوال کا جواب پہلے سے ارشاد فرمایا،  قربانی قبول ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ ہم اللہ کے مطیع اور فرماں بردار بن جائیں،

حضرت ابراہیم علیہ السلام  اپنے بیٹے کی قربانی دینے سے پہلے اللہ سے دعا کر رہے ہیں اللہ مجھے اور میرے بیٹے کو اپنا فرمانبردار بنا.

حضرت ابرہیم علیہ السلام کی نہ صرف قربانی بلکہ تمام زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ  خود کو اور اپنی اولاد کو اللہ کا فرمانبردار بنانا ہے.

قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ایمان والو پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ

مسلم(مسلمان) کہتے ہی اس اونٹ کو  ہیں جس کی نکیل اس کے مالک کے ہاتھ میں ہو

پھر وہ یہ نہیں سوچتا کہ مالک کا حکم کیسا ہے اس میں اگر مگر کی گنجائش نہیں نکالتا جو حکم ہوتا ہے اس کی تکمیل کرتا ہے

اسی کو سامنے رکھ کر اقبال نے فرمایا تھا

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

پھر ہمیں صرف قربانی کے لئے ہی نہیں زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کے حکم کو ، اللہ کے نبی کے طریقے کو اپنانا ہوگا ۔ صبح سے لے کر شام تک  ، زندگی کی شروعات سے لے کر اختتام تک ، خوشی میں ، غمی میں ہر مسئلہ  میں ہمیں اتباع رسول کو اپنانا ہوگا ۔ پھر انشاءاللہ ہماری قربانی کے ساتھ ساتھ تمام اعمال قبول ہوں جائیں گے ۔  اس کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کو بھی فرمانبردار بنانا ہوگا ۔ اس سلسلے میں گزارش  ہے کہ اولاد عمل سے سیکھتی ہے اگر والدین خود اللہ ، اللہ کے رسول کے فرمانبردار ہونگے تو انشاءاللہ ان کی اولاد بھی فرمانبردار ہو گی وہ ان کے گھر میں خیر و برکت نازل ہونے کا سبب بنے گی۔ وگرنہ معملہ اس کے برعکس ہو گا

قربانی کے قبول ہونے کی شرائط میں سے دوسری یہ ہے کہ عمل میں اخلاص ہو

جس کی آج کل بہت کمی ہے

نبی ﷺ کا فرمان ہے، بیشک اللہ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے. ( صحیح مسلم،

 اسی طرح میر تقی میر نے اپنی خوبصورت انداز میں وضاحت کی ہے

اخلاص دل سے چاہیے سجدہ نماز میں

بے فائدہ ہے ورنہ یوں وقت کھویئے۔

اس لئے جس حد تک ممکن ہو سکے ہر عمل کو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ بلا وجہ کی نمود و نمائش سے بچا جائے اپنے اس پاک عمل کو سوشل میڈیا سے دور رکھا جائے۔

تیسری شرط احساس ہے

قربانی کے گوشت کو جس حد تک ممکن ہو سکے

حقدار تک پہنچانے کی حتیٰ الوسع کوشش کریں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کی قربانی کو قبول فرمائے اور اس کو ہمارے لئے ذریعہ نجات بنائے.