سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے 12 ویں مرتبہ سندھ کا بجٹ پیش کیا ہے۔ سندھ کا یہ بجٹ 22 کھرب 44 ارب روپے کا تخمینہ لیے ہوئے ہے۔ اس بجٹ میں کراچی میگا پراجیکٹس کیلئے 12 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کراچی میں میگا پروجیکٹس ایک طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔
عمران خان نے بھی کراچی میں اپنے دور حکومت میں اعلانات کے سوا کچھ نہیں کیا۔ عوام نے پی ٹی آئی کو جو کراچی میں مینڈیٹ دیا تھا، اس کے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت کا کراچی پر توجہ نہ دینا، اور کراچی والوں کے زخموں پر مرہم نہ رکھنا کبھی بھی بھلائے نہ بھلایا جاسکے گا، سابق وزیر اعظم عمران خان نے ستمبر 2020 میں کراچی کے لیے ‘1100 ارب روپے مالیت کے ایک تاریخی پیکج’ کا اعلان کیا ہے جس میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کا تعاون شامل ہونے کا عندیہ دیا تھا۔ اس ترقیاتی پیکیج کی مدد سے کراچی کےبنیادی مسائل فراہمی ونکاسی آب، برساتی نالوں کا نظام، ٹرانسپورٹ اور سالڈ ویسٹ کا حل ڈھونڈ نے کا کہا تھا، اس سے ایک برس پہلے بھی عمران خان نے اپنے دورہ کراچی میں 162 ارب روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا تھا۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی کراچی کے لیے 800 ارب روپے کا پیکیج پیش کرنے کی خوشخبری سنائی تھی۔ جون 2020میں پیش کیے گئے سالانہ صوبائی بجٹ میں کراچی کی ترقی کے لیے 26 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ لیکن یہ بڑی بڑی رقمیں صرف اعلانات کی حد تک تھیں، کبھی سنجیدگی سے ان پر عمل نہ کیا گیا اور نہ ہی کراچی کو وسائل فراہم کیئے گئے، کراچی کے لیے مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت دونوں کا رویہ ایک جیسا رہا، وہ مرکز اور صوبے کی لڑائی میں کراچی کو مسلسل تباہ اور برباد کرتے رہے۔
دراصل کراچی کو اون کسی سیاسی جماعت نے نہیں کیا، ان حالات میں جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمن کی قیادت کی شکل میں کراچی کو ایک ایسی آواز دی، جس نے ہر ہر سطح پر کراچی کا مقدمہ لڑا، کراچی کے شہریوں کے دکھ درد میں ان کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہوئے، انہوں نے سماجی سطح پر کراچی کی آواز کو ملک بھر میں پھیلایا، اور بلدیاتی انتخابات میں اپنی محنت سے یہ ثابت کیا کہ کراچی میں جماعت اسلامی ہی وہ سیاسی جماعت ہے، جو اس شہر کے مسائل کو حل کرسکتی ہے۔
کراچی میں نوے کی دہائی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF) کراچی ڈویژن کے صدر سید نجیب احمد کی شہادت کے بعد امن و امان کی صورت حال خراب ہوئی۔ تو صوبائی حکومت کی درخواست پر “رینجرزکو تین ماہ کیلئے تعینات کیا گیا تھا۔ لیکن تاحال 1990-2023 تک امن عامہ کی صورتحال ایسی ہے کہ اب بھی یہاں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔
کراچی میں گذشتہ سال بارشوں کے بعد سے سڑکوں کا انفرااسٹرکچر بری طرح تباہ ہوا تھا، جبکہ شہر کے برساتی نالوں کو بھی توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا تھا، کھلے نالے اب تک کئی لوگوں کے جان لے چکے ہیں، حادثات کا شکار ہونے والوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے، جنہیں یہ برساتی کھلے نالے نگل چکے ہیں۔ مئیر کے انتخاب سے قبل کراچی کا بلدیاتی عملہ، صفائی ستھرائی، کچرا اٹھانے پر متحرک ہوا ہے، جس کے اثرات بھی شہر میں نظر آئے، پہلے کراچی کی سڑکیں ٹینڈر کرکے بنائی جاتی تھیں، لیکن اب سندھ کے مختلف محکمے مختلف علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی آڑ میں بڑی جعلسازی کررہے ہیں، بجٹ آنے سے پہلے پچھلے بجٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیے عجلت میں ٹینڈر اور ٹھیکے دیئے گئے ہیں۔ ان کروڑوں روپے کی لاگت کے ٹھیکوں میں ڈبلنگ اور فراڈ کے بھی انکشافات سامنے آئے ہیں۔
کراچی اب مافیاز کے چنگل میں ہے، کراچی کی سیاست اور حالات کی تبدیلی میں بنیادی رول ان مافیاز کا ہے، جو پانی، ٹرانسپورٹ، بجلی، انفرااسٹرکچر، قانون کی عمل داری، پولیس اور ریئل اسٹیٹ کے شعبوں پر مسلط ہے۔ اس لیے وہ کراچی کو کبھی بھی حقیقی اور مخلص قیادت نہیں دینا چاہتے ہیں، اور اب جب جماعت اسلامی تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے، اس شہر کی میئر شپ کے لیے ایک حقیقی اور سچی قیادت کو میدان میں لائی ہے تو بھی اس کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کے تمام انتخابات میں کمال کی انجینئرنگ کی گئی۔ کراچی کو کنٹرول میں رکھنے والوں نے عوام کا مینڈیٹ رکھنے والی قیادت کو بھی اپنی ضرورت کے لیے کبھی آزادی اور کبھی نکیل ڈال دھاندلی کے سب ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔
کراچی کے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ذریعے بدترین دھاندلی کرکے جس طرح عوام کے ووٹوں کا مذاق اڑیا جارہا ہے اور جس طرح پیپلز پارٹی کا میئر لانے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ وہ انتہائی شرمناک ہے۔ کونسلر اور چیئرمین کو آزادانہ طور پر ووٹ نہ دینے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جارہا ہے، ابھی 16 جون میں چند دن کا فاصلہ ہے، لیکن عوام نے جس انداز میں جماعت اسلامی کے ساتھ یکجہتی اور حافظ نعیم الرحمان کو مئیر منتخب ہونے کے لیے اپنی والہانہ وابستگی کا اظہار کیا ہے اور پورے ملک میں جماعت اسلامی نے اپنی بھرپور ریلیوں سے کراچی کے عوام کی اور ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کنے کے لیے آواز اٹھائی ہے، اس سے ان تمام قوتوں کو جو جمہوری اور آئینی طریقہ کو بالائے طاق رکھ کر ایک پیغام دے دیا ہے کہ کراچی اور حافظ نعیم الرحمان تنہا نہیں ہے، پورا ملک اس کے ساتھ کھڑا ہے۔