چین ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں کئی ریگستانی علاقے موجود ہیں، اور جہاں ہوا اور ریت کے شدید خطرات کا اندیشہ رہتا ہے۔تاہم حالیہ برسوں میں چین نے صحرا زدگی کے خلاف جنگ میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس میں چینی عوام کی لاکھوں دل کو چھولینے والی کہانیاں شامل ہیں۔سنہ 2022 کے آخر میں جاری کیے گئے ریگستانی علاقوں کے چھٹے قومی مانیٹرنگ سروے نتائج کے مطابق چین کے ریگستانی اور ریتلے علاقوں میں مسلسل چوتھی مرتبہ کمی واقع ہوئی ہے اور پہلی بار سروے میں شامل تمام صوبوں نے صحرا زدگی میں کمی کا بتایا ہے۔ یہ پیش رفت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ چین نے کامیابی کے ساتھ صحرا سازی کی توسیع کو روک دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحرا زدگی دنیا کو درپیش ایک بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہے اور سبھی ممالک کی کوشش ہے کہ اس سے پیدا ہونے والے دیگر ماحولیاتی مسائل کے سدباب کے لیے کوشش کی جائے۔اس ضمن میں چین نے ایک طویل عرصے سے صحرا کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کو ایک اہم تزویراتی کام کے طور پر لیا ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے متعدد موثر اقدامات اٹھائے ہیں۔چین عملاً اس فلسفے پر عمل پیرا ہے کہ ”صاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثے ہیں”، اسی تصور کی روشنی میں ملک کی جانب سے پہاڑوں، دریاؤں، جنگلات، کھیتوں، جھیلوں، گھاس کے میدانوں اور ریگستانوں کے مجموعی تحفظ اور منظم گورننس کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، اور تمام شعبوں میں ماحولیاتی تحفظ کو مضبوط کیا جا رہا ہے.نتیجتاً، ملک نے چینی خصوصیات کی حامل روک تھام اور کنٹرول کے تحت صحرا زدگی اور ریت کا مقابلہ کرنے میں قابل ذکر پیشرفت دکھائی ہے۔اس دوران چین نے ایسی سبز دیوار تعمیر کی ہے جس نے ریت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران صرف، اندرونی منگولیا میں ہی 8.1 ملین ہیکٹر رقبے پر درخت اور 19.1 ملین ہیکٹر رقبے پر گھاس لگائی گئی ہے، جس سے صحرائی زمین کا رقبہ مسلسل کم ہوتا جارہا ہے۔ چین صحرا زدگی میں متحرک تبدیلیوں کے ساتھ اپنے کنٹرول کے منصوبوں کو بہتر بنانے کے لئے، ہر پانچ سال بعد صحرا زدگی پر ایک ملک گیر نگران سروے بھی کرتا ہے۔
اس عمل میں اگرچہ چین مرحلہ وار نتائج حاصل کر رہا ہے لیکن اب بھی طویل مدتی نقطہ نظر سے ریگستانی کنٹرول کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔چین کے نزدیک خستہ حال زمینوں پر انسانوں اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کی بحالی کے لئے مزید سائنسی بنیادوں پر رہنمائی لازم ہے.یہی وجہ ہے کہ اب تک، ملک کی جانب سے شجرکاری، صحرائی کنٹرول،خشک زمینوں کی جنگلات اور سبزہ زاروں میں تبدیلی، اور ٹی آئل کیمیلیا پودے لگانے سمیت مختلف منصوبوں پر عمل درآمد جاری ہے.چین کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ ریگستانی کنٹرول ایک طویل مدتی اور مشکل کام ہے جو پورے معاشرے کی کوششوں اور متعلقہ علاقوں میں لوگوں کی وسیع شرکت کے بغیر ناممکن ہے.یہی وجہ ہے کہ، صوبہ حہ بے کے سائی ہان با سے لے کر صوبہ شانشی کی یویو کاؤنٹی تک، اندرون منگولیا خوداختیار علاقے میں صحرائے کوبوکی سے لے کر سنکیانگ ویغور خود اخیتار علاقے میں کی کیا تک، ان مقامات کے لوگوں نے گزشتہ دہائیوں میں صحرا سے لڑنے کے لیے انتھک کوششیں کی ہیں۔ان لوگوں کے جذبے اور استقامت نے انہیں صحرا کا مقابلہ کرتے ہوئے غربت سے چھٹکارا دلانے میں نمایاں مدد فراہم کی ہے۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ چین کے صحرائی علاقوں میں ہر سال 48 ملین ٹن خشک اور تازہ پھل پیدا ہوتے ہیں جو چین کی مجموعی پیداوار کا تقریباً ایک چوتھائی ہے، مجموعی سالانہ پیداوار کی مالیت 120 ارب یوآن (16.81 ارب ڈالر) ہے۔ ان مصنوعات نے تقریباً 15 ملین لوگوں کو غربت سے چھٹکارا دلانے میں مدد کی ہے۔ اہم علاقوں میں، کسانوں کی خالص آمدنی کا نصف سے زیادہ حصہ پھلوں کے کاروبار سے ہوتا ہے۔چینی حکام سمجھتے ہیں کہ معیشت اور ماحولیات کی ہم آہنگی کو فروغ دینے سے لوگوں کو وسیع پیمانے پر ریگستانی کنٹرول میں شامل کیا جا سکتا ہے، وسیع پیمانے پر زمین کوسر سبز بنانے کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور صحر ا زدگی کے خلاف ایک مضبوط ماحولیاتی رکاوٹ کھڑی کی جا سکتی ہے۔آج چین اپنی کامیابیوں کو مزید مستحکم کرنے، تحفظ کے اقدامات کو مؤثر انداز سے فروغ دینے، مزید سائنسی اور تکنیکی رویوں پر عمل پیرا ہونے، اور زیادہ سماجی شرکت کو متحرک کرنے کے لئے کوشاں ہے، تاکہ صحرا زدگی کے کنٹرول کے نئے ابواب رقم کیے جاسکیں۔