ایک مجرم جب ریاست کے خلاف بغاوت کرتا ہے، تو وہ ایک خلاف روایت عمل کی طرف بڑھتا ہے۔ اس کا عدالتی دائرہ کار میں پیش نہ ہونا، یا نظام عدل سے دائرہ کار سے زیادہ ریلیف کی امید رکھنا، قانون کی خلاف ورزی کرنا اور عام آدمی کے حقوق کو نقصان پہنچانا، لیکن اس کے بعد بھی، اس مجرم کو انسانی حقوق کی آڑ میں چھپنے کا رستہ منتخب کرنا، بہت سوچ کی بات ہے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے، حقائق کو زیر غور لانا ضروری ہے۔
ریاست کے خلاف بغاوت کرنا ایک سنگین جرم ہے جو سماجی سلامتی اور تنظیمی چیزوں کو متاثر کرتا ہے۔ ایسے مجرموں کو عموماً دہشت گرد یا غدار قرار دیا جاتا ہے، اور عدالتی نظام ان کے خلاف سخت سزاؤں کے عمل کو قائم رکھتا ہے۔ اس پیچیدہ ریاستی اور امن و امان کے معاملے میں مجرموں کو انسانی حقوق کا حصہ بنانا، ایک سنگین اور مشکل معاملہ ہے۔مجرموں کو اپنے جرائم کے بعد انسانی حقوق کی آڑ میں چھپنا ایک سیاسی چال ہو سکتی ہے جو کئی عوامل کا سبب ہوسکتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ افراد اپنے گرفتار ہونے سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ انہیں اپنی آزادی اور سیاسی مفادات سے محروم ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔
جب مجرم اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہے جو مجرم عموما نہیں کرتا، تو اس سے مختلف عوامی منظرنامے ظاہر ہوتے ہیں۔ ریاست کے لئے وہ خطرناک شخص ہوجاتا ہے، جبکہ کچھ لوگ اس کو اپنے لئے ہیرو بناتے ہیں جبکہ وہ خود براہ راست سماجی نظام سے اخراج کا سامنا کرتا ہے۔ اس کا ایک ممکنہ سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجرم اپنے جرم کے بعد، اونچی شان و شوکت کے کھو جانے کا ڈر ہو۔ اور وہ اپنی سابقہ شان و شوکت سیاسی رتبہ برقرار رکھنا چاہتا ہو ، تو اب اس کی قابلیت پر سوالات اٹھ سکتے ہوں۔اس لئے وہ انسانی حقوق کی آڑ میں چھپنا چاہتا ہے تاکہ اس کے مفادات پر برا اثر نہ پڑے اور وہ سیاسی اور سماجی طور پر واپس آسکے۔ دوسرا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ مجرم، اپنے جرم کے نتیجے کی وجہ سے عوامی اور ریاستی ردعمل سے ڈرتا ہو۔ یہ طبعی ردعمل ہے کہ کوئی شخص اپنے آس پاس کے لوگوں کی تنقید اور خطرے سے بچنا چاہتا ہے۔ مجرم چاہتا ہے کہ اس کا مستقبل، جہاں وہ دوبارہ اپنی زندگی کو دوبارہ شروع کر سکے، خطرے سے دور رہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے انسانی حقوق کی آڑ میں چھپ جاتا ہے.
جب کوئی شخص ریاست کے خلاف بغاوت کرتا ہے، تو وہ عوام دشمن قرار پاتا ہے اور اس کو عوام کےمنفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سوچ کر، مجرموں کو اپنے جرائم کے بعد بھی انسانی حقوق کی آڑ لینے میں مشکل ہوسکتی ہے۔ اس بحرانی موضوع پر غور کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ حقوق کے نظام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر افراد کو معزز بنائے رکھے، چاہے وہ کتنا بھی بدعنوان کیوں نہ ہوں۔ مجرموں کو انسانی حقوق کے ذریعہ ایک راہ فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ سکیں اور معزز شہری بن سکیں۔ عدالتی نظام کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے، انسانی حقوق کے معیار کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ تشدد کا دائرہ کم ہوسکے جو مجرموں کو اپنے جرائم کے بعد بھی تنگ کرتا ہے۔
مجرموں کو انسانی حقوق کی آڑ میں چھپنے کا رستہ منتخب کرنے کی وجوہات بہت ہوسکتی ہیں، لیکن اسے سمجھنے کے لئے ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے کہ ہمارے نظام عدل کی کارکردگی، اور سخت قوانین اور جزا سزا کے عمل سے مجرموں کی ریاست کے خلاف بغاوت کرنے کی وجوہات کم ہو سکتی ہیں۔ موجودہ نظام کو مزید بہتر بنانے کی خاطر، ہمیں سکولنگ، مہارتوں کی تربیت، ریاستی سہولیات کی فراہمی اور ریاستی اداروں میں اصلاحات پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر مجرموں کو مستحق توجہ دی جائے، تو وہ اپنے جرم کی سزا کے بعد پھر سے ایک معزز شہری بن سکتے ہیں اور معزز شہری بن کر معاشرتی قوانین کے قابل ہوسکتے ہیں۔
ایک اصولی تبدیلی کی ضرورت ہے جو مجرموں کیلئے انسانی حقوق کی آڑ برقرار رکھے، حتیٰکہ وہ اپنے جرموں کی سزا کو پورا کرتے ہوئے بھی معزز شہری بن سکیں۔ ہمیں عدالتی نظام کو تقویت دینی ہوگی تاکہ انسانی حقوق کے قوانین کو اپنی حقیقی صلاحیت برقرار رکھنا ممکن ہوسکے۔ انسانی حقوق کی آڑ میں چھپنے والے مجرموں کو معاشرتی رہنماؤں کے ساتھ کام کرکے دوبارہ سماجی اندراج میں لانا ہوگا، جو ہماری معاشرتی تشدد کے راستے کو ختم کرنے کا ایک ہی راستہ ہوسکتا ہے۔