سفرِحج

میری زندگی کے بہترین دن جب میرے رب نے مجھے پانچ دن کے لیئے اپنے گھر بلایا تاکہ میں پانچ دن دنیاومافیہا سے دور رب کی قربت تلاش کرسکوں۔ جب میرے اردگرد لاکھوں لوگوں کا مجمع ہو لیکن میں اکیلی اپنے رب سے مناجات کروں۔

لگے بس میں ہوں اور میرا رب ہے۔ اللہ اکبر

انسان سوچتا بہت کچھ ہے پر کروہی سکتا ہے جس کی توفیق رب کریم عطا فرمائیں۔ میں نے بھی ارادہ تو کیا تھا کہ پانچ دن دنیا سے کٹ کر صرف اپنے روحانی تزکیہ میں لگانے ہیں لیکن رب کی مخلوق کے ساتھ رہیں اور مسائل کا سامنا نہ ہو۔ یہ ہو نہیں سکتا۔ لیکن پھر بھی ایک دن منیٰ میں گذار کر 9ذی الحج کو عرفات گئے تو دل میں بہت خوف بھی تھا اور خوشی بھی کہ آج حاجی کا میڈل ملے گا یعنی آج میں اللہ کے غلاموں میں شامل ہو جاؤں گی۔ سوچتے سوچتے خوفزدہ ہو جاتی کہ قبولیت نہ ہوئی تو۔

ہمارے گروپ آرگنائزر اور ان کی بیگم بہت اچھے لوگ تھے۔ کئی سالوں سے لوگوں کو حج پر لیکر آرہے تھے اس لئے حج کی ساری جزئیات سے واقف تھے ہر کام ہمیں یاددلاتے رہتے جو کہ بعض ہمارے جیسے پہلی بار آنے والے حاجی سو رٹے لگانے اور تیاریاں کرنے کے بعد بھی بھول جاتے اور مناسک حج کتاب سے پڑھتےکہ اب کیا کرنا ہے اب کہاں جانا ہے۔

خطبہ عرفات انہوں نے ہمیں اردو ترجمے کے ساتھ خیمے میں سنوایا اور پھر نماز ظہر اور عصر کی ادائیگی کے بعد ان کی بیگم کھڑی ہو گئیں اورروتے ہوئے کہنے لگیں آج دعائیں مانگنے اور قبولیت کا دن ہے سب لوگ خیموں سے نکل جائیں اور جس کو جہاں جگہ ملتی ہے ساری دنیا سے چھپ کر اپنے رب کو منالیں اس کے سامنے رو لیں دھاڑیں مارمار کر رو لیں آج کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا ہوش نہیں۔ منالو اس کو مانگ لو سب کچھ۔ دوستی کر لو اس سے۔

بس پھر کیاتھا ہم سب نکل گئے باہر میاں کہیں، بچیاں کہیں اور میں کہیں۔ کتنی دفعہ پڑھا تھا کہ نبی کریم ﷺنے عرفات کے میدان میں ظہر وعصر کی ادائیگی سے لیکر مغرب تک چھ سات گھنٹے رو رو کر اللہ سےاپنی امت کی بخشش کی دعائیں کیں تھیں۔

حج کیا ہے دعائیں ہی دعائیں۔ اللہ پاک نے جن بندوں کو چاہا وہاں بلا کر کہا لو پانچ دن میری خاطر سڑکوں کی خاک چھانو، کبھی مکہ سے منیٰ جاواورمنی سے عرفات پھر مزدلفہ میں جوتے سرکے نیچے رکھ کر لیٹ جاؤ فنا کرلو خود کو میری خاطر۔ خاک میں مل جاؤ۔ دیکھو اے میرے بندو تمہاری خاطر نمازیں بھی میں نے مختصر کردیں ہیں آج صرف مانگنے کا دن ہے۔

مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے

کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار بنتا ہے

لیکن آج ربیعہ باجی کے کہنے پر سب کچھ دماغ میں تازہ ہوگیا اور اس وقت ہم نے باہر کھلی جگہ میں ایک خیمے کے سائے میں کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھا لیے اور ساری زندگی کے وہ آنسو جو کبھی نہیں بہے آج بہادئیے عرفات کے میدان میں دن کی روشنی میں ایک سکینت سی محسوس ہوئی۔ میں صدقے یارسول اللہ ﷺ کہاں ہم کہاں آپ۔ آپ کے قدموں کی دھول بھی نہیں ہم۔

کرے کون تیری برابری

یہ نہیں کسی کی مجال ہی

صلوعلیہ وآلہ

کہاں نبی پاک ﷺ اور کہاں ہم بےبس، عاجز و گناہ گار۔ اس موقع پر دل چاہ رہا ہےکہ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کروں جواس نےآج کے دن دین کو مکمل کیا۔

نبی پاک ﷺنےتو مسلمانوں کو گواہ بنالیا کہ آپ ﷺنے اللہ کا دین پہنچا دیا اور اُمت مسلمہ کو یہ زمہ داری دے دی کہ وہ ان کو پہنچا دیں جو وہاں نہیں تھے اور ان کو بھی جو ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس طرح یہ ذمہ داری سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک پہنچانے کا عہد ہے جو لاالہ الااللہ پڑھتے ہی ہم پر فرض ہو جاتا ہے، گویا یوم عرفہ تجدیدِ عہد کا بھی دن ہے۔

کاش کہ میں اپنی زندگی میں ان پانچ ایام کو ہمیشہ یادرکھوں میرا مقصد میری نظروں کے سامنے رہے اور اسی مقصد کے حصول میں اپنی زندگی لگا دوں۔