کیا پاکستان نے اپنی فارن پالیسی کی سمت تبدیل کرتے ہوئے ایک واضح سمت کا انتخاب کرلیا ہے؟- پاکستانی دفتر خارجہ نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے دوٹوک انداز میں چین کے کیمپ میں جانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور مزید یہ کہا ہے کہ پاکستان کیمپوں کی سیاست سے دور رہ کر ایک متوازن فارن پالیسی پر عملدرآمد کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا. اس ضمن میں دفترِ خارجہ نے اپنے بیان میں بالخصوص چین اور امریکہ سے اپنے دیرینہ اور اہم تعلقات کا ذکر کیا اور مستقبل میں ان تعلقات کو اسی طرح مستحکم رکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔
سفارتی سطح پر ہم دفترِ خارجہ سے ایسے ہی جواب کی توقع کر سکتے ہیں. تاہم کیا قرائن اس سے مختلف کسی ممکنہ پیش رفت کی طرف اشارہ کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہم پچھلے ایک سال کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں. جو خبریں پاکستان کے حوالے سے لگ بھگ پچھلے ایک سال سے گردش کرتی رہی ہیں ان میں پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ غیر نتیجہ خیز مذاکرات اور ان کے بے نتیجہ ہونے کے باوجود آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط کو، قبول کرنے کی بناء پر پاکستانی عوام کی معاشی حالتِ زار اور زبوں حالی سے متعلق خبریں سرِ فہرست ہیں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ایسے بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہیں جو مغربی معیشتوں اور بالخصوص امریکہ کے زیر اثر ہیں۔
ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ان اداروں سے قرضے اور مراعات حاصل کرنے میں پاکستان کو اس بناء پر آسانی میسر تھی کہ پاکستان کو ان مغربی ممالک اور امریکہ کی پشت پناہی بوجوہ حاصل رہی. ان میں سب سے بڑی وجہ افغانستان کے حالات رہے اور دوسری غالباً پاکستان کی جغرافیائی اور عسکری اہمیت رہی ہوگی. افغانستان سے مغرب کا فوجی انخلاء تو ہو چکا، لیکن وہاں کی صورتحال اور وقوع پزیر ہونے والی تبدیلیوں کی نوعیت تو غیر اہم نہیں ہوئی. مزید یہ کہ عسکری اہمیت کے اعتبار سے تو شاید یوکرین جنگ کے تناظر میں پاکستان معاملے کے دونوں فریقین کے لیے اور زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔
اس صورتحال میں پاکستان کی اہمیت کا کم ہونا تو بعید از گمان ہے، تاہم مغرب سے کھچاؤ کی بڑی وجوہات میں چین سے پاکستان کی قربت اور سی پیک جیسے منصوبوں پر پیش رفت شامل ہو سکتے ہیں. روس یا ایران سے بہتر ہوتے ہوئے تعلقات تجارتی سرگرمیوں تک محدود ہیں جو مغرب کے لیے شاید اتنے پریشان کن نہ ہوں. ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغرب اور بالخصوص امریکہ کی جانب سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں، اوّل یہ کہ ایک کمزور پاکستان بھارت سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے زیادہ آسانی سے رضامند ہوگا، جو بھارت کو چین کے بالمقابل کھڑا کرنے میں معاون ہوگا۔
مزید یہ کہ اقتصادی طور پر کمزور پاکستان کو اپنے دیگر دوستوں سے جن میں چین بھی شامل ہے خاطرخواہ مدد نہ ملنے کی صورت میں امریکہ کی جانب دیکھنا اور اپنی پالیسیوں کو امریکی مفادات سے مطابقت میں لانا ہوگا. تاہم، چین نے پاکستان کے قرضوں کو دو، سال کے لیے رول اور کر کے اور حال ہی میں بھارت میں ہونے والے G-20 اجلاس میں شرکت سے انکار کر کے کشمیر کے بارے میں اپنے موقف کا اعادہ بھی کر دیا ہے. اس پس منظر میں امریکہ کے مقتدر حلقوں میں اس سوچ کا، پیدا ہونا، لازمی ہے کہ پاکستان پر مزید دباؤ کے نتیجے میں پاکستان اگر اب تک چینی کیمپ میں درحقیقت نہیں گیا تو عنقریب ایسا کر لے گا۔
یہ تنقید بہت عام ہے کہ ہم اپنے اندرونی مسائل کو بین الاقوامی رنگ دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں. کسی حد تک تو یہ بات درست ہے. تاہم، یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جس کے اندرونی حالات جیو پالیٹکس سے منسلک رہتے ہیں. لہٰذا تیزی سے بدلتی اندرونی صورتحال میں بیرونی زاویے سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔