ایل جی بی ٹی قانون اور نابالغ اذہان

حزب الشیطان کی نیٹو مضمون میں مشہور محقق عائشہ غازی نے چند ایسے چشم کشا حقائق بیان کئے جن کا جاننا بحیثیت پاکستانی ہمارے لئے بہت اہم ہے۔

نئے پڑھنےوالے افراد کے لئے عائشہ غازی کا تعارف بھی ضروری ہے۔

عائشہ غازی ایک صحافی، وکیل، ماہر حیاتیات، شاعرہ اور سماجی کارکن ہیں۔ عائشہ زیادہ تر اپنی ڈاکومنٹری فلموں کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے لوگوں کے حقوق پر ڈاکومنٹریز بنائے ہیں اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے۔ ان کے زیادہ تر ڈاکومنٹریزکا موضوع متاثرین ڈرون حملے، متاثرین وزیرستان، تھر کے رہائشی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سے محبت کرنے والے عنوانات اور پاکستان کو ہونے والے مضمرات کا بہت خوبصورتی سے جائزہ لیتی ہیں۔

انہوں نے ایل جی بی ٹی کے حوالے سے حالیہ تحقیقی مضمون میں جو باتیں اور انکشافات کئے بحیثیت پاکستانی آج ہرہر فردکو جاننا اور اپنےخاندان کو اس ناسور سے بچانا بہت ضروری ہے۔

بقول عائشہ غازی!

ایل جی بی ٹی  ایک طاقتور اور تباہ کن طوفان ہے۔ حزب الشیطان کی نیٹو ہم پر حملہ آور ہے۔ اور ہماری اکثریت اس جنگ سے لاعلم ہے۔ فتنے کاپہلو یہ ہے مرد مرد نہ رہے اورعورت عورت نہ رہے۔ معاشرتی ذمے داریوں کی حد تک تو یہ ہدف حاصل ہو چکا ہے، اب جسمانی ساخت کی باری ہے۔  پہلے مردوں کو عورت اورعورتوں کو مرد بننے کی طبی سہولت دی گئی۔ بات یہاں سے ہوتی وہاں تک پہنچی کہ اب مغربی ممالک میں لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ روازنہ اپنے “رجحان” کی بنیاد پر اپنی جنس کا اعلان کر سکتے ہیں اور جو وہ اپنی جنس کے بارے کہہ دیں اسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔

دوسری طرف جو ابھی اپنی قدرتی جنس پر قائم رہنے کے حق میں ہیں،ان کے لئے جو اہلیانِ دین ہیں، ان کے لئے کم بچے خوشحال گھرانہ کا سلوگن ہے۔

تیسری طرف دادا دادی نانا نانی کو خاندان سے باہر کر کے سب سے پہلے بچوں کی ایک حفاظتی دیوار گرائی گئی، پھر طلاق کا رجحان بڑھا کر بچے خاندانی نظام سے باہر نکال کر سنگل مدَر یا سنگل فادر کے ذمے کئے گئے، کسی خزانے کی آدھی دیواریں گرا دیں تو اس تک رسائی آسان ہے۔

ایل جی بی ٹی جنگ کے تانے بانے صرف جنسی بے راہ روی آسان کرکے عورت کو خاندان کے تحفظ سے باہر لانا اور اسے مارکیٹ پراڈکٹ یا آبجیکٹ فار ہائر بنا کر اس سے پیسے کمانا نہیں ہے۔ یہ تو اسکا صرف ایک پہلو، ایک آسان ترین ہدف ہے۔ اس کا سب سے خوفناک ہدف بچے ہیں۔ انہیں صرف عورتیں نہیں چاہیئیں، انہیں بچے چاہئے ہیں جو حفاظتی دیواروں سے باہر ہوں۔ بچے کیوں چاہیے ہیں؟ اس کا جواب دل دہلا دینے والا ہے اور یہ شیطانی مذہب اور ایلومیناتی تنظیم کی خفیہ رسومات میں بچوں کے استعمال سے لے کر انسانی اعضاء کی فروخت کے بین الاقوامی دھندے تک تہہ در تہہ پھیلا ہوا ہے۔ ڈراموں اور جوائے لینڈ جیسی فلموں کے زریعے ان تمام افعال کو جواز فراہم کیا جارہاہے، تعلیمی اداروں اور اساتذہ کے ذریعے بھی اذہان تیار کئے جا رہے ہیں۔ اب ان تمام افعال کو پاکستان میں قانونی جواز اور راستے فراہم کئے جارہےہیں۔

خبر یہ بھی ہے کہ چند دن پہلے جو بائیڈن نے “پاکستان میں انگریزی کے ان اساتذہ کے لئے پانچ لاکھ ڈالر گرانٹ” کا اعلان کیا ہے جو “ٹرانس جینڈر نوجوانوں” پر فوکس کریں گے۔  یاد رہےکہ ٹرانس جینڈر وہ ہیں جو اپنی قدرتی جنس تبدیل کروا کر دوسری جنس اختیار کرتے ہیں۔اس خبر کا سب سے خوفناک پہلو ہیڈ لائن کے نیچے چھوٹے فونٹ سائز میں ہے کہ یہ گرانٹ وصول کرنے والے “تیرہ” سال سے پچیس سال کے جوانوں پر یہ پروگرام لاگو کریں گے۔

اب تک آپ کو اس فتنے کی حساسیت کا اندازہ ہوگیاہوگا۔

اس مضمون سے یہ بات تو اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ ایل جی بی ٹی کااثر کس طرح نابالغ اور کچے اذہان پر کس طرح راسخ کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ان اساتذہ کو گرانٹس اور مختلف الاونس دیئے جارہے ہیں کہ کس طرح ایک استادیہ الاونس ملنے کے بعد پوری تندہی اور محنت سے مسلمان بچے اور نوجوانوں کا دماغ پوری طرح ایل جی بی ٹی کے فتنے کو قابل قبول بنادے اور اسے حزب الشیطان میں شامل کروادے۔ ویسے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کے بند کو باندھنے میں حکومت سو فیصد بے بس نظر آتی ہے۔ اب اس طرح کی غیر ملکی امداد کے ذریعے مسلمانوں سے حلال حرام کی تمیز بھی ختم کی جارہی ہے۔ معلم کا پیشہ جو ایک مقدس پیشہ ہے اسکی حرمت کو ختم اور اسکی ناموس کو تباہ کرنے کے لئے جس طرح غیر ملکی امداد دےاساتذہ کو انکےمقدس فریضےمیں حرام کا تخم بویا جارہاہے ارباب اختیار اور ذرائع ابلاغ کے رہنماؤں کو اس مسئلے کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیناہوگا۔ اپنی نسل کو بچانے کی ہر ممکن اقدامات کرنے ہونگے۔

جس طرح بھی آپ اس فتنے کی ریشہ دوانیوں سے بچوں بڑوں کو آگاہ کرسکتے ہیں بھرپور کوشش کیجئے۔ کم از کم طاغوت کی لگائی ہوئی آگ میں اس معصوم چڑیا کا کردار کریں جواپنی چونچ میں پانی لاتی اور نمرود کی لگائی ہوئی آگ میں ڈال دیتی تاکہ روز قیامت اسکانام آگ بجھانے والوں میں آجائے۔

ہمارے حصےکاکام یہی ہے کہ اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں۔ کیونکہ طاغوت کے تمام لشکر تیار، تمام مورچےآباد اور تمام ہتھیار کسے جاچکے ہیں۔