بلوچستان کا سیاسی بحران 

سنہ 2013 میں عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے جن تین جماعتوں کے درمیان سیاحتی مقام مری میں جو معاہدہ ہوا تھا ان میں مسلم لیگ (ن) ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی شامل تھیں۔معاہدے کے مطابق پہلے اڑھائی سال کے لیے وزیر اعلیٰ کا عہدہ بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک بلوچ کو دیا گیا اور پھر اڑھائی سال کیلئے نواب ثناء اللہ زہری کو دیا گیا اور ساتھ میں گورنر کی کرسی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو دیئے جانے کا معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کو تینوں جماعتوں کے ممبران نے چار سالوں تک تو نبھایا مگر چار سال گزرنے کے بعد مسلم لیگ نون کے آپس میں شدید اختلاف پیدا ہو گئے اور وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کو اپنے ہی دوستوں نے آخری سال کے چند ماہ پہلے تنہا چھوڑ دیا اور عدم اعتماد کی تحریک شروع کر دی۔ اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی بلوچستان آئے تھے اور نون لیگی کارکنوں سے ملاقات کا انتظار دو دن تک کرتے رہے مگر بلوچستان کے نون لیگی صوبائی اسمبلی کے ممبران نے ان سے ملاقات تک نہیں کیا تو پھر وزیراعظم نے نواب ثناء اللہ زہری کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیدیا۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کے خلاف ابتداء میں تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے والوں میں مسلم لیگ (ن) کے اپنے ہی ساتھی پیش پیش تھے جن میں میر سرفراز بگٹی ،سردار صالح محمد بھوتانی ،میر عامر رند ،میر غلام دستگیر بادینی ،سردار سرفراز ڈومکی ،پرنس احمد علی ،میر جان محمد جمالی ‘راحت فائق جمالی شامل تھے ان لوگوں نے عہد کر رکھا تھا اب وزیر اعلیٰ بلوچستان کو ہٹانا ہے جس کی وجہ ان لوگوں نے فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم اور بلوچستان میں 35 ہزار خالی آسامیوں پر بھرتی کا معاملہ بتایا تھا۔جبکہ ان نون لیگی باغیوں کا ساتھ دینے کیلئے مسلم لیگ (ق) کے میر عبدالقدوس برنجو ، ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی ،میر عبدالکریم نوشیروانی ،میر امان اللہ نوتیزئی شامل ہوگئے تو اپوزیشن ممبر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر جان مینگل ،میر حمل کلمتی بھی میدان میں آ گئے جبکہ اے این پی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی ، مجلس وحدت المسلمین کے سید آغا رضا اور نون لیگ کے اتحادی اہم ساتھی نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو‘میر فتح بلیدی بھی اس میدان میں آ گئے حتیٰ کہ ان کو پارٹی کی جانب سے نوٹس بھی بھیجا گیا تھا لیکن پھر بھی یہ کارواں نہ رکا اور آزاد رکن اسمبلی نوابزادہ طارق مگسی اور اپوزیشن پارٹی کے جمعیت علمائے اسلام کے تمام مولانا عبدالواسع ،سردار عبدالرحمان کھیتران ،عبدالمالک کاکڑ ،خلیل الرحمن دمڑ ، مولوی معاذ اللہ ، مفتی گلاب ،حسن بانو رخشانی ،شاہدہ رؤف اس تحریک میں شامل ہونے کیلئے پہنچ گئے اور بالآخر حکومت وقت کے وزیر اعلیٰ نے خود اپنی کرسی کو چھوڑنے کا اعلان کردیا۔
سابق وزیر اعلی کو 65 اراکین کی اسمبلی سے صرف 33 اراکین کی حمایت درکار تھی مگر وہ اس سیڑھی کو پار نہیں کر پا رہے تھے تو نون لیگی وزیر اعلی نے بلوچستان اسمبلی کے نون لیگی باغیوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہو گئے یہ وہی باغی گروپ تھا جو پرویز مشرف کے دور میں بھی وزراء کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سابق وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے اپنے استعفے میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کافی تعداد میں اسمبلی اراکین میری قیادت سے مطمئن نہیں،میں نہیں چاہتاکہ میری وجہ سے صوبے کی سیاست خراب ہو، اقتدار آنے جانے والی چیز ہے،میں زبردستی اپنے ساتھیوں پر مسلط نہیں ہوناچاہتا ۔میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 130 کی شق 8 کے تحت وزارت اعلیٰ کے عہدہ سے مستعفی ہو رہا ہوں۔ بلوچستان حکومت کے وزیر اعلی کے مستعفی ہونے کی وجہ بظاہر تو تحریک عدم اعتماد بنی جو صرف 14 اراکین کے دستخطوں کے ساتھ شروع ہوئی تھی اور کامیابی پہ ختم ہوگئی۔
پاکستان میں جہاں لاکھوں ووٹ لیکر بھی الیکشن میں امیدوار ہار جاتے ہیں مگر 2013ء کے عام انتخابات میں امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث کم ٹرن آؤٹ میں عبدالقدوس بزنجو فقط 544 ووٹ لیکر بلوچستان اسمبلی کے ایم پی اے بن گئے تھے اور اب وزیر اعلیٰ بن گئے ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے وزیر اعلی کے انتخاب میں کل 54 ووٹ ڈالے گئے تھے جن میں 41 ووٹ عبدالقدوس بزنجو کے حق میں ڈالے گئے جبکہ ان کے مد مقابل پشتونخوا ملی عوامی پارٹی آغا سید لیاقت شاہ کو صرف 13 ووٹ ملے۔ عبدالقدوس بزنجو بلوچستان اسمبلی کے قائد بن گئے ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو اب تک بلو چستان کے سب سے کم عمر وزیر اعلی بھی بن گئے ہیں عوامی حلقوں میں ان سے بہت سی امیدیں لگائی جا رہی ہیں مگر اب یہ وقت بتائے گا کون کتنے پانی میں ہے۔

حصہ
mm
ببرک کارمل جمالی کاتعلق بلوچستان کے گرین بیلٹ جعفرآباد سے ہے ۔ان کے ماں باپ کسان ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے انہیں ایم اے تک تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کیا۔ ببرک نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے حاصل کیا اور اعلی تعلیم کیلئے پھر کوئٹہ کا رخ کیا ان کی پہلی تحریر بچوں کے رسالے ماہنامہ ذہین میں شائع ہوئی اس کے بعد تحاریر کا نہ رکنے والا سلسہ جاری وساری رہا اب تک دو ہزار کے لگ بھگ تحاریر مختلف رسالوں اور اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔یہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں جبکہ ان کی تحاریر ان اخبارات اور رسالوں میں چھپ چکی ہیں اور چھپ رہی ہیں جن میں (روزنامہ پاکستان) بلاگ رائیٹر (روزنامہ ایکسپریس) بلاگ (حال احوال) کوئٹہ بلاگ رائیٹر جبکہ ان کی فیچر رپورٹس ( ڈیلی آزادی)کوئٹہ (ڈیلی مشرق )کوئٹہ ماہنامہ جہاں نما کوئٹہ میں آج تک چھپ رہی ہیں۔ان کی کہانیاں (ماہنامہ پھول) لاہور (ماہنامہ ذہین) لاہور (ماہنامہ اردو ڈائیجسٹ)لاہور ( ماہنامہ پیغام) لاہور (ماہنامہ روشنی)پنڈی (ماہنامہ افکار جدید) لاہور میں چھپ چکی ہیں ۔ان کاا یک مستقل سلسلہ بلوچستان کے حوالے ماہنامہ اطراف انٹرنیشنل کراچی میں بھی چل رہا ہے اس کے ساتھ یہ بچوں کے لیے بھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ ماہانہ (پارس) کے مدیر بھی ہیں۔ کئی ادبی ایوارڑ بھی مل چکے ہیں اور ٹی وی، پہ کچھ پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ جبکہ اکسفورڈ پریس کی کتاب میں بھی ان کی تحریر شائع ہو چکی ہے۔ببرک پاکستان رائیٹر سوسائیٹی بلوچستان کے نائب صدر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں