عالیہ کو آج اپنی ماں کی بہت یاد آرہی تھی، وہ سوچ رہی تھی جب امی کی آنکھوں کا آپریشن ھوا تھا اور آپریشن میں کوئی پیچیدگی ہو گئی جس کی وجہ سے انہیں گنگا رام ہاسپٹل میں دس دن رہنا پڑاتھا تو عالیہ چاہ کر بھی نہیں جاسکی۔ کیونکہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھااور جب اس نے گھر میں ہلکی سی خواہش ظاہر کی کہ میں امی کو دیکھنے لاہور جانا چاہتی ہوں تو اس کی ساس نے فوراً کہا یہ تمہاری ذمہ داری نہیں ان کے بہو بیٹے کی ہے۔ اس نے لاکھ کہا کہ وہ ہی امی کو سنبھال رہے ہیں میں تو صرف خیریت پوچھنے جانا چاہتی ہوں تو اس کی ساس نے کہا پرسوں کرن کے رشتے والے آرہے ہیں سارے انتظامات کرنے والے ہیں اس کے بعد چلی جانا۔
اس کے بعد بچوں کے سالانہ امتحان شروع ہونے تھے تو میاں صاحب نے فرمایا بچوں کی پڑھائی پر نو کمپرومائز۔ چاروناچار وہ بچوں کے امتحانات ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی فون پر امی کی خیریت پوچھ لیتی آگے سے امی اس سے ناراض ہوتیں کہ تمہارا بھائی اور بھابھی مجھے طعنے دیتے ہیں کہ مشکل وقت میں عالیہ نے آکر آپ خدمت کرنا تو درکنار عیادت کے لیئے بھی آنا گوارا نہیں کیا۔ سسرال سب کے ہوتے ہیں یہ کیا بس نند کے رشتے ساس سسر کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ صرف سسرال ہی ہے اس کے لیئے۔ ماں کا کوئی حق نہیں۔
آخر مہینہ گذر گیا امی گھر واپس آگئیں تو پھر وہ ان سے ملنے گئی۔ امی کو مل کر رو بھی نہ سکی کہ امی کی بھی آنکھیں بھر آئیں گی اور رونا ان کی آنکھوں کے لئے ٹھیک نہیں تھا۔ امی کو تسلیاں دیتی اپنی کوتاہیاں بچوں کی مجبوریاں بیان کرتے اور بھائی بھابھی کا شکریہ ادا کرتے کہ آپ نے امی کے لیئے بڑی قربانیاں دیں اللہ آپ کی اولاد کو بھی آپ کی اسی طرح خدمت کرنے کی توفیق دے، دعائیں دیتی وہ واپس آگئی۔
آج کئی سال گذر گئے اس بات کو پچھلے سال امی کا انتقال ہو گیا اور وہ عالیہ کو اکیلا چھوڑ کر ابو کے پاس چلی گئیں
آج مدرزڈے پر وہ سوچ رہی تھی کہ میں نے تو اپنے شوہر اور ساس کا کچھ بھی برا نہیں کیا ان کی ہمیشہ اطاعت ہی کی لیکن پھر بھی انہوں نے میرے ساتھ یہ زیادتی کیوں کی۔ ساسیں تو بہوؤں کےساتھ تعصب رکھتی ہی ہیں لیکن اس کے سسراورشوہرنےبھی ان کو نہیں سمجھایا۔ انکی غلطیوں پر ان کو نہیں ٹوکا۔ وہ تو برائی کو ہاتھ سے روک سکتے تھے مگر انہوں نے زبان سے بھی برا نہیں کہا بلکہ شاید دل میں بھی برا نہیں سمجھا کیوںکہ کچھ دن پہلے اسکےسسر اسے کہہ رہے تھے کہ تمہاری امی کی طبیعت خراب ہے۔ بہو کا یہ فرض ہے کہ جس طرح وہ اپنے ماں باپ کی خدمت کرتی تھی اسی طرح اب وہ بے چارے ضعیف ساس سسر کی بھی خدمت کرے۔