اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک پائیدار انسانی سماج کا انحصار صحت مند جنگلی حیات کی آبادی، صحت مند ماحولیاتی نظام اور صحت مند حیاتیاتی تنوع پر ہے۔اس اعتبار سے حیاتیاتی تنوع انسانی بقا کی ایک شرط، پائیدار معاشی و سماجی ترقی کی بنیاد اورحیاتیاتی و غذائی تحفظ کی ضمانت ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سبھی ممالک کی کوشش ہے کہ حیاتیاتی تنوع کے شعبے کو ترقی دی جائے۔
چین دنیا میں جنگلی حیات کی امیر ترین اقسام والے ممالک میں سے ایک ہے۔ حالیہ برسوں میں چین، نایاب اور خطرے سے دوچار جنگلی جانوروں، پودوں اور ان کی رہائش گاہوں کے بچاؤ اور تحفظ کو مضبوط بنانے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق چین کا نظر ثانی شدہ قانون، جسے گزشتہ سال دسمبر میں اعلیٰ قانون ساز ادارے نے منظور کیا تھا،ابھی حال ہی میں یکم مئی سے نافذ العمل ہو چکا ہے، جو ملک کی جنگلی حیات اور ان کے مساکن کے بہتر تحفظ کی کوششوں کا حصہ ہے.
نظر ثانی شدہ قانون میں جنگلی حیات کی آبادی کو منظم کرنے کے لئے اقدامات کو جامع انداز سے بہتر بنایا گیا ہے۔اس صورت حال کے پیش نظر جس میں جنگلی جانوروں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور یہ لوگوں کی املاک اور تحفظ کے ساتھ ساتھ زراعت اور مویشی پروری کی پیداواری صلاحیت کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں، قانون یہ طے کرتا ہے کہ آئیسولیشن اور تحفظ کی سہولیات، حفاظتی انتباہ کے نشانات کے ساتھ، حقیقی صورتحال کی روشنی میں تعمیر کی جانی چاہئے۔یہ جنگلی جانوروں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے لئے قومی سبسڈی کا دائرہ بھی وسیع کرتا ہے، جو سنگین نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق موجودہ قانون 1988 میں تیار کیا گیا تھا، اور یہ نظر ثانی 2016 کی نظرثانی کے بعد پہلی ترمیم ہے۔اس قانون کی روشنی میں جنگلی جانوروں کو قرنطینہ میں رکھنے کے لئے متعدد اقدامات نافذ العمل ہوئے ہیں۔ قرنطینہ کے دائرہ کار کی وضاحت کی بنیاد پر، اقدامات میں یہ طے کیا گیا ہے کہ متعلقہ نظام کو حقیقی صورتحال کے مطابق بہتر بنایا جائے،تکنیکی معاونت کے نظام میں بہتری سمیت بین محکمانہ تعاون کو مضبوط بنایا جائے۔
اس قانون کا بغور جائزہ لیا جائے تو بہت سارے ایسے پہلو ہیں جن پر ہم ترقی پزیر ممالک کے لوگ عموماً سوچتے تو ضرور ہیں یا پھر چاہتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے مگر عمل درآمد میں مسائل درپیش آتے ہیں۔چین کا یہ قانون جنگلی حیات کے مساکن کے تحفظ کو مضبوط بناتا ہے اور جنگلی حیات کی آبادی کو مستقل بنیادوں پر آگے بڑھانے کے لیے لازمی اقدامات کی تفصیلی وضاحت کرتا ہے۔اس قانون میں واضح کر دیا گیا ہے کہ جنگلی حیات کو خصوصی ریاستی تحفظ کا درجہ حاصل ہو گا۔ ساتھ ساتھ ماحولیاتی، سائنسی اور معاشرتی اقدار کی روشنی میں جنگلی حیات کا قومی سطح پر تحفظ کیا جائے گا اور ان کی بقا کو درپیش خطرات کا تدارک کیا جائے گا۔اس ضمن میں تجارتی مقاصد یا پھر کسی غیر قانونی سرگرمی کے لیے جنگلی جانوروں کے شکار، تجارت یا نقل و حمل کی سختی سے ممانعت ہوگی. یہ قانون متعلقہ جرائم کے حوالے سے سزاؤں کا تعین بھی کرتا ہے جو یقیناً جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ایک اہم محرک ہے۔
قانون کی بدولت ملک میں پہلے ہی جنگلی جانوروں اور ان کے مساکن کے تحفظ کو تیز کرنے اور خطرے سے دوچار جنگلی حیات کے بچاؤ اور افزائش نسل کو مضبوط بنانے میں نمایاں مدد ملی ہے۔ چین کی فطرت سے محبت کی ان کوششوں نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور ملک میں ماحولیاتی تحفظ کو آگے بڑھانے میں بھی فعال کردار ادا کیا ہے۔آج ملک میں جنگلی حیات کی آبادی مؤثر طریقے سے بحال ہو چکی ہے کیونکہ قدرتی ماحول مسلسل بہتر ہو رہا ہے، ملک بھر میں جنگلی حیات کے مساکن پھیل رہے ہیں اور معدومیت کے خطر ے سے دوچار جانوروں سمیت دیگر جنگلی حیات کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔کہا جا
سکتا ہے کہ چین قانون سازی جیسے عملی اقدامات کی مدد سے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ دنیا میں بھی حیاتیاتی تنوع بالخصوص جنگلی حیات کے تحفظ میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے اور انسانیت اور فطرت کا ہم نصیب معاشرہ تشکیل دینے کیلیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کوششوں کو آگے بڑھا رہا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے قیمتی قدرتی اثاثہ محفوظ کیا جا سکے۔