یکم مئی یوم مزدور پر پاکستان میں بھی عام تعطیل ہوتی ہے، ایسے میں ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ یہ دن کیوں منایا جاتا ہے، اور ہمارے معاشرے میں مزدورطبقہ کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ یکم مئی 1986ء کو شکاگو کے محنت کشوں نے اپنی جانوں کا نذارانہ دیکر غلاموں کی طرح سولہ سولہ گھنٹوں کام لینے کے خلاف جدوجہد کر کے آٹھ گھنٹے روزانہ اوقات کار منظور کرائے اور19ویں صدی میں صنعتی ممالک میں محنت کشوں نے مسلسل جدوجہد اور قربانیوں سے بنیادی حق انجمن سازی حاصل کیا۔ اس سے قبل حکمران طبقہ اور محنت کش طبقہ اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتے تو انہیں بغاوت قرار دے کر پھانسیاں دیتے رہے۔
جناب رسول پاک رحمت اللعالمینؐ ﷺ نے محنت کو عبادت کا درجہ قرار دیا اور مسجد نبوی کی تعمیر میں خود محنت کر کے محنت کی عظمت کو سربلند کیا۔ آج اکیسیوی صدی میں ٹیکنالوجی، تعلیم، مقابلہ اور عالمی اقتصادیات کے دور میں پاکستان میں ریاست کا فرض ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے دیباچہ مطابق سماج میں استحصالی نظام کے خاتمہ اور آئین ضمانت شدہ حقوق بمطابق آرٹیکل نمبر11، سماج میں کمسن بچوں و جبری محنت کے خاتمہ، آرٹیکل نمبر14 کے تحت انسانی عظمت کا تحفظ، آرٹیکل نمبر9کے تحت زندگی کیلئے بنیادی ضروریات کی فراہمی اور آرٹیکل نمبر25 کے تحت کام پر کسی کو جنس اور رنگ ونسل کی بنا پر بالخصوص خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف مکمل ضمانت دی ہوئی ہے اور آرٹیکل نمبر37 اور 38 کے مطابق ریاست کی پالیسی ہے کہ وہ کارکنوں کو صحت مند حالات کار اور معقول اجرت ، سماجی تحفظ اور سماج میں امیر و غریب کے مابین بے پناہ فرق دور کرنے اور ہر بچے/ بچی کو بامقصد تعلیم و تربیت اور کارکنوں کو روزگاری کی فراہمی کے مقصد کی تکمیل کرائے۔
حکومت پاکستان نے عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور اقوام متحدہ کا دیرینہ رکن ہونے کی حیثیت سے کارکنوں کے حقوق کے تحفظ و بہتری کیلئے اہم کنونشنوں کی توثیق کر رکھی ہے جس کے تحت ان کی عالمی ذمہ داری ہے وہ ملک کے قوانین کو اس پر عملدرآمد کرنے کیلئے ہم آہنگ کرے۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ملک میں جاگیرانہ نظام و سرمایہ دارانہ نظام کو دن بدن تقویت ملنے اور چند ہاتھوں میں دولت کی اجارہ داری سے ملک میں نوجوانوں کی عام بے روزگاری، سماج میں تعلیم کاروبار کی حیثیت اختیار کرنے سے غریبوں کے بچوں کی تعلیم سے محرومی اور ملک میں اہم خاندانوں کے ہاسنگ سوسائٹیوں کے وسیع کاروبار سے راتوں رات زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ اسکیموں کو قائم کرنے سے خود اربوں روپے کا مالک بن گئے ہیں جبکہ غریب طبقہ تین مرلہ کا مکان بھی تعمیر نہیں کر سکتا اور ملک میں مروجہ مزدور قوانین پر موثر عمل نہ ہونے سے کارکن غیر محفوظ حالات کار اور قلیل اجرتوں، سماجی تحفظ سے محرومی، کمسن بچوں اور جبری محنت اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی لعنتوں سے دوچار ہیں تاحال سماج میں انہیں ختم نہیں کیا جا سکا۔
ملک کی مسلسل حکومتوں نے قومی اقتصادی خود کفالت پالیسی اپنانے اور قوم کو غیر ملکی و ملکی قرضوں سے آزاد کرانے کی بجائے اقتصادی طور پر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے ہاتھوں گروی کر دیا ہے جس کی وجہ ٹیکس کا 66 فیصدی حصہ ان کے قرضوں کے سود میں ادا ہو جاتا ہے ۔ کارکنوں کو معقول اجرتوں کی ادائیگی یقینی بنانے اور انہیں بڑھاپے، بیماری، حادثہ میں محفوظ سماجی تحفظ فراہم کرنے اور سماجی میں محنت کے احترام کی عزت بلند کرنے کے مقاصد تشنہ طلب ہیں۔ ملک کا محنت کش طبقہ یہ عالمی دن مناتے ہوئے بجاطور پر موجودہ حکومت اور سیاسی جماعتوں اور قومی اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسی ترقی پسندانہ اقتصادی و سماجی پالیسیوں کا نفاذ کریں جس سے پاکستان کے آئین میں غریب عوام کیلئے ضمانت شدہ بنیادی حقوق اور حکومت پاکستان آئی ایل او کنونشنوں کے مطابق عالمی ذمہ داریاں پوری کرے۔
کارکنوں کی بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے ساتھ علامہ محمد اقبال اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق پاکستان میں اسلامی فلاحی مملکت قائم کرائیں جس سے غربت، بے روزگاری، جہالت، بیماری اور امیر و غریب کے مابین بے پناہ فرق دور ہو اور سماج میں جاگیردارانہ طرز کے کلچرکا نظام ختم ہوا ور محنت کشوں کو اللہ کے حبیب کا درجہ ملے ۔ اس مقصد کیلئے محنت کشوں کو اپنے اتحاد کو مضبوط تر کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو کامیاب کرنا ہو گاکیونکہ حقوق خود بخود نہیں ملتے بلکہ انہیں چھیننا پڑتا ہے۔ ملک میں 80 فیصد ٹیکس گزار تنخواہ دار ملازم ہیں جبکہ ملک کی اکثریت میں سرمایہ دار و جاگیردار، تاجر اور بعض سیاستدان برائے نام ٹیکس دیتے ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے ان سے ٹیکس وصول کر کے ملک میں بڑھتی ہوئی غربت، نوجوانوں کی عام بے روزگاری، محنت کشوں کی فلاحی و بہبود اور بچوں کی تعلیم اور عوام کے علاج معالجہ کیلئے سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ملک میں نہ صرف قانونی انصاف بلکہ سماجی و اقتصادی انصاف محنت کشوں اور غریب عوام کو میسر ہو ۔