ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین کی کوشش ہے کہ ملک میں سبز توانائی کی فراہمی کا جامع نظام بنایا جائے جو سبز کم کاربن صنعتی نظام کو فروغ دینے کی کلید ہے۔اس مقصد کی خاطر فوسل توانائی کے استعمال کے تناسب کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے اور گرین ہائیڈروجن، قابل تجدید بجلی (شمسی توانائی، ہوا کی طاقت،پن بجلی وغیرہ) اور دیگر سبز توانائی کے استعمال کے تناسب کو بڑھانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ چین کی کوشش ہے کہ توانائی کی بچت والی ٹیکنالوجیز کی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے، ساتھ ہی ساتھ اہم تکنیکی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وسائل کو متحرک کیا جائے۔ چین کے نزدیک اہم ترجیح یہ بھی ہے کہ سبز کم کاربن ترقی کو فروغ دینے کے لیے خصوصی تکنیکی آلات کی سطح کو بہتر بنایا جائے اور ملک میں جوہری بجلی گھروں کی تعمیر اس وژن کی ایک عملی تصویر ہے جسے چین کی ماحول دوست کوششوں کا منہ بولتا ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے۔
اسی حوالے سے چائنا نیوکلیئر انرجی ایسوسی ایشن کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والی بلیو بک کے مطابق چین اس وقت زیر تعمیر نیوکلیئر پاور یونٹس کی تعداد کے لحاظ سیدنیا میں سرفہرست ہے۔بلیو بک میں کہا گیا ہے کہ ملک میں 24 نیوکلیئر پاور یونٹس زیر تعمیر ہیں جن کی مجموعی تنصیب کی گنجائش 26.81 ملین کلو واٹ ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے طویل مدت میں اپنے جوہری پاور یونٹس کو محفوظ اور مستحکم طریقے سے چلایا ہے، جبکہ ان کی تعمیر میں مستقل پیش رفت کی ہے۔2022 سے اب تک چین نے 10 نئے نیوکلیئر پاور یونٹس کی منظوری دی ہے، تین نئے یونٹس کو کمرشل آپریشن میں شامل کیا ہے اور چھ نئے یونٹس کی تعمیر کا آغاز کیا ہے۔اب تک ملک میں کمرشل نیوکلیئر پاور یونٹس کی تعداد 54 ہو چکی ہے جن کی مجموعی صلاحیت 56.82 ملین کلو واٹ ہے، جو دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔اس کے ساتھ ہی چین نے اپنی جوہری توانائی کو بھی ”محفوظ کارکردگی” کے ساتھ چلایا ہے جسے بین الاقوامی سطح پر برقرار رکھا گیا ہے۔
دوسری جانب یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ، چین ملکی ساختہ کلیدی جوہری توانائی کے سازوسامان کو مسلسل بہتر بنا رہا ہے، جوہری توانائی کے سازوسامان کی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت کو فروغ دے رہا ہے اور متعلقہ ”صنعتی چین” کو محفوظ کرنے کی صلاحیت کو فروغ دے رہا ہے۔چین کے لیے یہ امر بھی حوصلہ افزاء ہے کہ اُس نے ایک ملین کلو واٹ گنجائش کے حامل پریشرڈ واٹر ری ایکٹرز کے لئے جوہری توانائی کے مرکزی سازوسامان کے مکمل سیٹ فراہم کرنے کی صلاحیت تیار کی ہے۔گزشتہ برس چین میں جوہری توانائی کے مرکزی سازوسامان کے کل 54 سیٹ تیار کیے گئے، جو گزشتہ پانچ سالوں میں ایک نئی بلندی پر پہنچ چکے ہیں۔اس وقت ملک کے 90 فیصد سے زیادہ بڑے جوہری توانائی ری ایکٹرز مقامی طور پر تیار کیے جاتے ہیں۔چین کی نیوکلیئر پاور انجینئرنگ کی تعمیر کی تکنیکی سطح بین الاقوامی اعتبار سے اعلیٰ معیار کی درجہ بندی کو برقرار رکھے ہوئے ہے، جس میں بیک وقت 40 سے زیادہ نیوکلیئر پاور یونٹس بنانے کی صلاحیت ہے.یوں جوہری توانائی کے سازوسامان کی تیاری کی صلاحیت نے چین میں جوہری توانائی کی منظم ترقی کی بھرپور حمایت کی ہے۔
یہ توقع ہے کہ چین 2030 تک جوہری توانائی کی تنصیب کی صلاحیت میں دنیا کی قیادت کرے گا۔ 2035 تک ملک کی جوہری توانائی کی پیداوار بجلی کی مجموعی پیداوار کا 10 فیصد ہونے کی توقع ہے، جس سے چین کے توانائی ڈھانچے میں جوہری توانائی کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگا تاکہ توانائی کے ڈھانچے میں کم کاربن تبدیلی کی حمایت کی جاسکے۔یہ امر بھی باعث اطمینان اور قابل تقلید ہے کہ چین نیسبز اور کم کاربن ترقی کی جانب اپنی پیش قدمی کو عمدگی سے آگے بڑھایا ہے اور توانائی کے تحفظ اور کاربن کمی میں مسلسل پیش رفت دکھائی ہے۔اس حوالے سے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران انرجی مکس میں بہتری آئی ہے کیونکہ توانائی کی کل کھپت میں صاف توانائی کا حصہ 20.8 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے۔
ملک کاربن اخراج میں کمی کو عروج پر لے جانے اور کاربن نیو ٹرل کے اہداف کی جانب تیزی سے کام کر رہا ہے۔اس خاطرمنظم اقدامات کے ذریعے انرجی مکس کو مسلسل بہتر بنایا جا رہا ہے اور توانائی کا ایک نیا نظام تشکیل دیا جا رہا ہے، جس میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو اسمارٹ اور سبز پیداوار کی جانب لے جانا شامل ہے۔ توانائی کے نئے نظام، جس میں توانائی کے نئے ذرائع کے تناسب میں بتدریج اضافہ اور شفاف توانائی وسائل کو بڑے پیمانے پر بہتر بنانا شامل ہے، کا مقصد ملک کے انرجی مکس میں قابل تجدید توانائی کے کردار کو مزید مستحکم کرنا ہے۔اس حوالے سے وضع کردہ رہنما پالیسی، فی یونٹ توانائی کی کھپت اور بڑی آلودگیوں کے اخراج میں کمی، فوسل فیول کی کھپت پر بہتر کنٹرول اور ماحولیات کو بہتر بنانے کے چین کے ارادے کی عکاسی کرتی ہے، جسے رواں سال کے ترقیاتی اہداف میں شامل کیا گیا ہے۔یہ نکتہ غور طلب ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں چین میں کوئلے سے انتہائی کم کاربن اخراج کی صلاحیت 1050 گیگا واٹ سے تجاوز کر گئی ہے، قابل تجدید توانائی کی نصب شدہ صلاحیت 650 گیگا واٹ سے بڑھ کر 1200 گیگا واٹ سے زیادہ ہو چکی ہے، اور توانائی کی کھپت میں صاف توانائی کا شیئر مسلسل بڑھ رہا ہے۔