میڈیا اور پروپیگنڈا

” امجد صاحب کو کیا ہو گیا ہے ؟ ”
“امجد صاحب کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے کیا؟”
” امجد صاحب کیوں ایسے ہیں ؟” وغیرہ وغیرہ
یہ اس صحافی امجد کا ذکر نہیں جو برسوں پہلے ڈرامہ سیریل میں مستنصر حسین تارڑ کردار کیا کرتے تھے بلکہ یہ اس بریفنگ کا ایک حصہ ہے جو پروفیسر سلیم مغل صاحب جسارت بلاگرز ورکشاپ کے شرکا کو دے رہے تھے۔
موضوع تھا میڈیا اور پروپیگنڈا
دلچسپ بات جو اس ابتدائی گفتگو سے معلوم ہوئی یہ تھی کہ پروپیگنڈا پہلے مثبت معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ (اس کی مثال ایک لفظ ” لفاظی” ہے جو دراصل ایک مثبت صفت ہے مگر اس کے منفی استعمال نے اس کے معنی بدل کر رکھ دیے ہیں )۔ اسی طرح یہ لفظ پروپیگنڈا حمایت ، تشہیر اورپھیلاؤ کے وسیع پس منظر کے بجائے محض دشمن کو نقصان پہنچانے کے مفہوم تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے باوجود بہر حال اس لفظ میں تشہیر ذاتی ہو یا تجارتی ، معاشرتی ہو یا سیاسی خود بخود موجود ہے۔
انہوں نے پروپیگنڈا کی تاریخ، طریقے اور اقسام پر بات کی۔ان کا انداز دلچسپ تھا اور مواد معلوماتی ۔آخری جملے تک شرکا کی توجہ برقرار تھی۔برسوں پہلے ہم نے سوشل سائنسز کی کچھ درسی کتب پڑھی تھیں جن کے مطابق 3 طرح کے پروپیگنڈے ہیں ۔سفید، سیاہ اور گرے۔ نام سے ہی ان کی کیفیات ظاہر ہیں۔مثبت، منفی اور ملا جلا! ہمیں یہ سب کچھ یاد آرہا تھا۔
سلیم مغل صاحب کے مطابق پروپیگنڈا نہایت مربوط ، منظم ، مسلسل اور بر وقت ہوتا ہے۔ یہ بالکل ہتھوڑے کی ضربات کی طرح ہوتا ہے چنانچہ اس کے لیے ’’ہیمرنگ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ انہوں نے ذاتی مثال دے کر بات سمجھائی کہ انہوں نے اپنی کلاس کو ایک خبر کی لیڈ بنانے کو کہا۔خبر یہ تھی کہ حبیب بنک کی بلڈنگ پر حملہ ! دلچسپ بات یہ ہوئی کہ کلاس میں موجود بیس ،پچیس طلبہ وطالبات میں سے ہر ایک نے ایک مختلف جملے بنائے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ میں ٹوئن ٹاور پر حملے کے چند منٹ کے اندر یہ خبر تمام نشریاتی اداروں سی این این،بی بی سی،فاکس اوردیگر میں یکساں الفاظ میں چل رہی تھی
America Under Attack
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک کلاس کے شرکاء تک ایک جملہ یکساں الفاظ میں نہیں ادا کرپاتے جبکہ مختلف نشریاتی ادارے ایک ہی لہجے اور الفاظ میں ہتھوڑے کی طرح برسنے والی خبر سنا اور دکھا رہے تھے جس نے پوری دنیا کے جذبات کوایک مخصوص طرف موڑ کر رکھ دیا۔ اور پھر حملے کے چند منٹوں کے اندر عرب ، مسلمان ، لادن کی تکرار شروع ہوگئی۔کئی ملکوں کا جغرافیہ اور تاریخ بدل کر رکھنے والی اس تاریخی واقعے کی وضاحت کر نے کے لیے سلیم مغل صاحب نے وہ جملے ادا کیے جو اس بلاگ کے آغاز میں تحریر کیے گئے ہیں۔
ورکشاپ سے واپسی پر ذہن اس پر سوچنے پر لگا ہوا تھا کہ میڈیا کے اس جن سے کیسے نبرد آزما ہوجائے ؟ بائیکاٹ ؟؟ کتنا اور کیسا ؟ یہ محض اتفاق ہے کہ اگلے چند دن میڈیا سے ہمارا ٹاکرا نہ ہوسکا مگر کچھ دن فاقے کے بعد جیسے ہی رابطہ ہوا ایک پیاری سی بچی کی تصویر کے ساتھ’’جسٹس فار زینب‘‘ کی پکار ہر طرف سنائی دی۔ بچی کے رنگ روپ اور لباس سے قومیت اور وطن کا ندازہ نہیں ہورہا تھا مگر نام سے مسلمان ظاہر ہورہی تھی۔ تجسس میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی کہ ہر طرف یہ ہی پکار تھی۔اس سلسلے میں پہلی پوسٹ کینیڈا ، بر طانیہ اور ہالینڈ وغیرہ سے پڑھنے کو ملی جس کے مطابق یہ واقعہ پاکستانی شہر قصور میں پیش آیا اور ان سب کازور اس بات پر تھا کہ والدین ایک نفلی عبادت کے لیے اپنی بچی کو بھیڑیوں کے چنگل میں چھوڑ گئے۔
باوجود اس کے واقعہ بہت زیادہ افسوس ناک تھا،اپنے ملک کا وقار خاک میں ملنے والی خبر پر لوگوں کا اس قدر جوش میں آنا حیرت زدہ کر رہا تھا۔ اس شور و غل میں تدفین اور احتجاجی ہڑتال پر فائرنگ کے نتیجے میں دو قتل ہونے کے بعد پورا ملک ہم آواز ہوکر ایک ہی بات کہہ رہا تھا۔ لادین عناصر ہوں ہوں یا دین بیزار طبقے ، اسلام پسند ہوں محب وطن اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے تھے۔ملالہ پر حملے کے بعد کچھ ایسی ہی صورت حال نظر آئی تھی !اس موضوع پر کوئی خاموش نہ تھا مگر کوشش کے باوجود ہمارے حلق سے افسوس اور تعزیت کے علاوہ کوئی آواز نہ نکلی۔ ذہن میں ایک یلغار تھی جو شور مچا رہی تھی۔الھم ارنا الحق۔۔۔۔کی دعا زبان پرآرہی تھی۔اور ذہن میں جو کچھ تھا اسے شیئر کرنے کی ہمت نہ تھی۔ وسوسے ، خدشات ابہام کے لفافے سے باہر آرہے تھے۔ اور پھر چند دنوں بعد بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔
بچوں کو جنسی تعلیم دی جائے ! یہ تھا اعلامیہ جو ہتھوڑے کی طرح چیخنے لگا۔خوف زدہ بچوں ، پریشان والدین کے لیے ایک ہی حل سامنے لایا گیا۔ اسلام پسند لوگ جو پہلے دبے دبے لہجے میں اپنے معاشرتی نظام کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہے تھے کھل کر اسلامی نظام گھروں اور حجروں کی سطح پر نافذ کرنے کا مطالبہ لے کر سامنے آگئے۔ مزید یہ کہ لوگ متوجہ اور چوکنا ہوئے شاید یہ اس واقعے کا سب سے روشن پہلو ہے جبکہ دیگر پہلو خاصے چیلنج سے بھر پور ہیں۔دشمن کاسب سے بڑی ہدف ہمیں خوف زدہ کرنا اور رکھنا کامیابی سے ہمکنار ہوا۔اس کے بعدمحرم رشتوں پر بد اعتمادی کا رحجان پیدا ہوا پھر ٹیوٹر ، قاری صاحبان ، ڈرائیور سے لے کر معاشرے کے ہر کردار پرعدم اعتماد! ہمارے خاندانی اور معاشرتی نظام کو تہہ و بالا کر کے ہمیں تنہا اور اکیلا کرنا دشمن کا خاص ایجنڈا ہے کہ ایسا فرد آسان ہدف ہوتا ہے۔
بات پرو پیگنڈے سے شروع ہوئی تھی ، اس ضمن میں کئی واقعات ہم بچپن سے بھی سنتے آئے ہیں جوکچھ یوں ہے کہ ایک آدمی نے کہا کہ آج اس گھر میں چوری ہوگی اور پھر ایسا ہی ہوا۔ایک لڑکی نے کہا کہ آج یہاں سے ایک فرد کم ہوجائے گا اور پھر یوں ہوا کہ کہنے والی لڑکی گھر سے بھاگ گئی۔ اور ظاہر ہے چوری کرنے والا بھی وہی شخص تھا جس نے پیشن گوئی کے پردے میں پروپیگنڈے کا ہتھیار اٹھا یا۔گویا مجرم ذاتی ہو یا سیاسی پروپیگنڈے کا حربہ ضرور بالضرور استعمال کرتا ہے۔ زینب کے واقعے میں بھی یہ ہی عنصر عین ممکن ہے ! جو دشمن ہمارے اسکولوں میں گھس کر حملے کر سکتا ہے اس کے لیے یہ سب منصوبہ تیار کر نا کون سی بڑی بات ہے جبکہ کچھ عر صے سے سو شل میڈیا میں یہ بحث اٹھائی جا رہی تھی کہ محرم رشتہ داروں سے بچے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں ؟ گو یا ہیمرنگ واقعے سے پہلے شروع ہوجاتی ہے اور پھر اس کی شدت بڑھا کر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ ہمارا خاندانی نظام عرصے سے دشمن کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے اس کو تہہ وبالا کر نے کے لیے بڑی مناسب اور بر وقت کارروائی کا انتظام کیا گیا۔ اس سارے عمل میں ٹائمنگ کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ کچھ ہی عرصے قبل شاہ زیب قتل کیس کے عجیب و غریب فیصلے نے عوام کو خاصہ ہیجان میں مبتلا کیا ہوا تھا۔زینب کو قتل کر کے ہمارے دشمن نے بہت دور تک سوچا اور کارروائی کی۔یہ اور بات ہے کہ اللہ کی چال غضب کی ہے کہ وہ شر سے بھی خیر بر آمد کر دیتا ہے۔!
ویسے ایک بات بلاشبہ کہی جا سکتی ہے سوشل میڈیا کے ذریعے کسی مسئلے کو اجا گر تو کیا جا سکتا ہے مگر حل اور وہ بھی پائیدار ،عملی اقدامات کے بغیر ممکن نہیں ! اور امید ہے کہ جسارت بلاگ ہو یا اخبار اس ضمن میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا رہے گا ۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں