روزہ ڈھال ہے، ہم بچپن سے ہی پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں، ڈھال کا لفظ ذہین میں آتے ہی محاذ پر ڈھال سے آراستہ مجاہد کی شبہیہ ذہین میں جاتی ہے جو دشمن کے وار سے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے اس پر کاری ضرب لگاتا ہے، کیا ہم اس ڈھال (روزہ) کے ذریعے اپنے سب سے بڑے دشمن شیطان کے وار سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اور اس ڈھال کی طاقت تقوی ہے، جی ہاں اپنے رب سے محبت اور پھر اس کی طرف رجوع کرنا کہ وہ خالق وقادر ہمیں دیکھ رہا ہے اچھے اور برے عمل پر سزا و جزا دینے کا اختیار رکھنے والا مالک ہے لہٰذا ہمیں اسی کی اطاعت کرنی ہےاور اس ماہ مبارک کے روزوں کا مقصد ہی اپنی ذات کو تقویٰ سے سنوار کر شیطانی واروں سے اپنے آپ کو بچانا ہے تیس دن کی اس مشق سے یقیناً نفس کی تربیت کا اعلیٰ انتظام اور لائحہ عمل ہمارے ہاتھ میں ہے جو بندگان خدا کے ابدی سفر کا سامان ھے سبحان اللہ؛ یہ میرے رب کا امت مسلمہ کے لیے بڑا کرم اور انعام ہے؛؛ یعنی روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ اپنے نفس کی غلامی سے بچ کر رجوع الٰہی کا نام ہے۔
اس ماہ مبارک کی ہرگھڑی بندگان خدا کے لئے اجر وثواب کا ذریعہ ہے اگر اسے اطاعت اللہ اور اطاعت رسول کی پیروی کے مطابق انجام دیا جائے ذکر شکر و تسبيحات و نوافل و قیام لیل کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا بھی اشد ضروری امر ہے تمام دن عبادت و سر بسجود رہنے کے باوجود اگر بندگان خدا کے ساتھ ناروا سلوک و زیادتی سرزد ہو گئی تو ایسے سجدے اکارت جائینگے صرف رشتوں کے تقدس کو برقرار نہیں رکھنا بلکہ آس پڑوس، ملازمین، ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک رکھنا اور ضرورت مندوں مساکین کے لیے اپنے ہاتھ کو کھلا رکھنا افضل نیکی ہے۔
انسان معاشرتی حیوان ہے اس معاشرے کو اپنی ذات سے فائدہ و آرام سہولیات فراہم کرنا اسلامی تعلیمات کا جز ہیں جس سے اکثریت غافل ہے مثلاً رمضان کے آنے سے پہلے ہی اشیاء خورد نوش کی ذخیرہ اندوزی پھر رمضان میں اسے مہنگے داموں فروخت کرنا، ناقص مال کو شامل کرنا، دگنے داموں میں فروخت کرنا نہ صرف گناہ ہے بلکہ بندگان خدا پر ظلم کے مترادف ہے ان برائیوں سے بچنے والا تاجر اپنے روزے کا محافظ ہے اور ہم مسلمان اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ پروردگار ایسے ایماندار تاجر کے رزق میں ناصرف برکت و کشادگی دیتا ہے بلکہ اسے سکون قلب کی دولت سے نوازتا ہےاور یہی قلبی سکون انسان کی اشد ضرورت ہے
مختصر یہ کہ ہمیں اپنے رمضان کو رب العزت کی منشا ورضا کے مطابق گزارنے کے لیے اپنے نفس کو شیطان کے واروں سے بچانے کے لیے تقویٰ کی ڈھال سے آراستہ کرنا ہوگا جو زندگی و آخرت کی بھلائی کا ذریعہ بھی ہوگا. یعنی اس تقوی کی ڈھال سے بندہ آخرت کی بھلائی سے نا صرف خود مستفید ہو سکتا ہے بلکہ بندگان خدا کے سکون اور آرام کا باعث بھی بن سکتا ہے، سبحان اللہ۔ رب العزت ہمیں ایسے بندوں کی صف میں شامل کرے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔