ماہ صیام کی بابرکت اور رحمت بھری فضاء ہی ہے کہ ہم نیکی کی طرف راغب ہو جاتے ہیں،برا سوچنے، برا چاہنے اور برا کرنے سے صرف اس لئے باز رہتے ہیں کہ نفس گناہ سے آلودہ نہ ہو جائے۔ یہی تزکیہ نفس ہے۔جب ہم ماہ صیام کے تقدس کا خیال کرتے ہوئے دوسرے کو حقیر جاننے سے باز رہتے ہیں، گھریلو سطح پر ہوں یا کاروباری، دفتری امور ہوں یا ملکی۔ جب ہم دوسرے کے لئے آسانی پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور نہ خود کسی کی ترقی، کامیابی، خوشی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں نہ ہی دوسرے کو بننے دیتے ہیں تو دراصل ہم اپنے نفس کو شر سے بچانے کی قصداً کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
ماہ صیام ہمارے لئے رحمت ہے، مغفرت ہے، جہنم سے آزادی کا پروانہ ہے اور ایک پر تقدس ماحول ہے جس میں نفس امارہ کمزور پڑ جاتا ہے، نفس ملامہ متحرک ہو جاتا ہے اور یوں نفس مطمئنہ تک کا سفر سہل ہو جاتا ہے۔
بے شک اللہ نے کوئی ذی روح خیر سے خالی پیدا نہیں کی مگر نفس تو شر پر اکساتا ہی ہے لہٰذا جو انسان نفس کی اکساہٹ کے آگے بے بس ہو جاتا ہے، مختلف حیلوں کے ساتھ نفس کی سنتا ہے۔ کبھی اولاد کی آزمائش میں ناکامی کا ثبوت دیتے ہوئے نفس کی پوجا کرنے لگتا ہے تو کبھی مال کی آزمائش اسے نفس کا غلام بنا دیتی ہے تو دراصل وہ بندھی رب نہیں بندگی نفس کر رہا ہوتا ہے خواہ وہ کتنی ہی نمازیں پڑھتا ہو، روزے رکھتا ہو۔
روحانی امراض ہی ہیں جو جسمانی اور ذہنی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔نفس اور نفسانی اکساہٹیں ذی روحوں کو روحانی بیماریوں میں مبتلاء کرتی ہیں تو دوسری طرف بے ضرر انسان جن سے کسی کو نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا اور یہ خیر پھیلانے کا ہی سبب ہوتے ہیں۔ یہ بھی اکثر اوقات روحانی بیمار مثلا حاسد، مغرور، متکبر، بڑائی کے طلبگار، غصیلے، جھگڑالو، بد اخلاق، انا پرست، گھمنڈی اور بغض سے بھرے انسانوں کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں اور یا تو انہی کے جیسے ہو جاتے ہیں یا سرد مہری کا شکار ہو جاتے ہیں، خول میں بند ہو جاتے ہیں، خود ساختہ قیود کا اپنے آپ کو پابند بنا لیتے ہیں، اپنا حق چھوڑتے چھوڑتے اپنے سے وابستہ رشتوں، ماتحتوں سے بھی اسی طرح حق چھوڑ دینے کی توقع رکھتے ہیں۔ بجا ہے کہ حق پر ہوتے ہوئے حق کو چھوڑ دینا بلند خیالی ہے مگر دوسرے کو اس کے لئے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ گویا نفس صرف ایک فرد ہی کو بیمار نہیں کرتا بلکہ کئی انسانوں کی روحانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ رمضان وہ مہینہ ہے جو ان بیماریوں کے لئے مرہم کا کام دیتا ہے۔ اگر ہم اس ماہ میں اپنا تصور بندگی درست کر لیں اور صرف نماز کی ورزش اور جسم پر فاقہ طاری کرنے کی بجائے ضمیر کی آواز پر توجہ دیتے ہوئے ہر کھٹک پیدا کرنے، روئیے، عمل، سوچ، ارادے سے پرہیز کریں، فحش سے باز رہیں، منکر یعنی وہ تمام افعال جن کو کرنے سے روک دیا گیا ہے ان سے باز رہیں تو پھر ہی ہم نفس کے تزکیے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے، تزکیےکے لئے صرف ذکر لسان ہی کافی نہیں بلکہ عملی ذکر بھی ضروری ہے۔ أئیےعہد کریں کہ اس رمضان میں ہم اپنی کم از کم ایک بری خصلت کو اللہ کی خاطر چھوڑ دیں گے اور کم از کم ایک نیک عادت کو شعوری طور پر اپنائیں گے۔ مثلا بڑائی کا طلبگار ہونا چھوڑ دیجئے کہ بڑائی اللہ کے لئے ہے اور اس میں شریک ہونے والے کو اللہ کبھی بھی عزت نہیں دیتا تا وقتیکہ وہ اسے ترک کر دے اور عفو کا پلو تھام لیجئے تا کہ دل کی گہرائیوں سے ہم اللہ کے عفو کو طلب کر سکیں۔ اگر ہم ایسا کر لیتے ہیں اور پورا سال اس روش پر قائم رہتے ہیں تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ ہم رمضان کی عظمت کو پا گئے، نفس کے تزکیے میں کامیاب ہو گئے۔ اللہ اس رمضان کو ہمارے لئے تزکیہ نفس کا سبب بنا دے ۔آمین