آج کے بچوں کو جب ہم اپنے کل کی باتیں سناتے ہیں تو وہ یوں تعجب و حیرانی سے سنتے ہیں اور ہمیں دیکھتے ہیں جیسے بچپن میں ہم پریوں اور دیو کی کہانی سنتے ہوئےہو جاتے تھے گرچہ یہ صدیوں کا نہیں بلکہ چند دہائیوں کا پیچھے سفر ہے؛ جی ہاں چند دہائیاں پیچھے اور آج کے اس جدید ترقی یافتہ دور میں زمین آسمان کا فرق ہے، مثلاً چند دہائیاں پیچھے بچوں کا اسکول چاہیے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر کیوں نہ ہو تا بچے اکیلے پیدل بلا خوف وخطر جآتے اور آتے تھے کبھی کوئی المناک واقعہ سنائی نہیں دیتا تھا، کیا آج ایسا ممکن ہے؛ والدین سوچ بھی نہیں سکتے آج پانچ دس منٹ کے فاصلے کے لیے بھی والدین بچوں کے لیے وین لگواتے ہیں پھر بھی ہر لمحے خوف زدہ رہتے ہیں جب تک بچے گھر واپس نہ آجائیں۔
چند دہائیاں پہلے تعليمی اداروں کی چار دیواری بچوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتی تھیں کوئی غیر اخلاقی واقعہ شاذونادر سنائی دیتا تھا، جبکہ آج کے اس جدید دور میں آئے دن تعلیمی اداروں کے اندر غیر اخلاقی واقعات، لڑائی جھگڑےاور منشیات وغیرہ کے واقعات سن کر والدین کو تشویش درپیش رہتی ہے پچھلے دنوں ایک معروف مفتی صاحب کا بیان نظروں سے گزرا کہ اگر کچھ یونیورسٹیوں کے اندرونی معاملات سے والدین واقف ہوجائیں تو وہ خصوصاً اپنی بیٹیوں کو ان اداروں میں تعلیم کے حصول کے لیے نہ بھیجیں۔
آج عموماً ہم چاردیواریوں کے اندر سوسائیٹیوں میں رہتے ہیں جہاں آہنی گیٹوں پر اسلحہ بردار چوکیدار چوبیس گھنٹے پہرہ دیتے ہیں لیکن اسکے باوجود آئے دن وارداتوں کی خبریں سنائی دیتی ہیں جبکہ چند دہائیاں پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھیں تو نہ آہنی گیٹ تھے نہ اسلحہ سے لیس چوکیدار ہوتے تھے ہم نے اپنا بچپن ایک گنجان آبادی والے رہائشی علاقے میں گزارا جہان ایک گلی میں پچیس تیس دو یا تین منزلہ عمارتیں تھیں عمارتوں میں داخلے کے لیے سیڑھیوں کے پاس کوئی گیٹ نہ تھا آج شاید اندرون شہر ایسی عمارتیں ہیں لیکن وقت کے تقاضے کے مطابق ان عمارتوں میں بڑے بڑے گیٹ یا دروازے لگادیے گیے ہیں تاکہ کوئی اجنبی عمارت میں داخل نہ ہوسکے۔ اسکے باوجود ہر اپارٹمنٹ کے داخلے کے لیے ایک معمولی لکڑی کا دروازہ ہوتا تھا جو ایک زور دارٹھوکر سے ٹوٹ سکتا تھا لیکن الحمد اللہ ہر اپارٹمنٹ والے محفوظ زندگی گزارتے تھے۔ بچپن کے اس دور میں ہم نے اپنے آس پاس کوئی چوری وغیرہ کی واردات کے بارے میں نہیں سنا، جبکہ یہاں اکثریت کاروباری لوگ بستے تھے اور خوشحالی کی زندگی گزارتے تھے۔
آج ہمیں اپنے بچپن کے دن کسی خواب کی طرح محسوس ہوتے ہیں دو یا تین کمروں کے اپارٹمنٹ میں دو یا تین فیملیاں بڑی محبت اور اتفاق سے رہتی تھیں یعنی ماں باپ کے ساتھ دو یا تین شادی شدہ بیٹے اپنے ایک دو نونہالوں کے ساتھ ایک چھت تلے سکون سے رہتے تھے معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے سے پرہیز کیا جاتا تھا کشادہ دلی سے ایک دوسرے کو برداشت کیا جاتا تھا جبکہ آج بڑے بڑے مکانات ہیں لیکن دل بڑے تنگ ہیں، دکھ اس باٽ کا ہوتا ہے جب ایک چھت تلے بھائی بھائی کو برداشت نہیں کرتا ایک دوسرے کے گلے کاٹے جاتے ہیں بے دردی کا یہ حال ہے کہ کچھ بد نصیب شادی کے بعد سگے ماں باپ سے بھی پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلے اگر کسی خاندان میں غریب رشتے دار ہوتا تھا تو انہیں باقی رشتے دار مکمل سہارا دیتے تھے جبکہ آج یہ بات بہت کم نظر آتی ہے کیا ہم بالکل بے حس ہو چکے ہیں ہم میں انسانیت بالکل نہیں رہی یہ صرف چند جھلکیاں ہیں جو میں نے آپکے سامنے رکھیں ہیں جبکہ اس قسم کی بہت سی تبدیلیاں ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ چکیں ہیں جس نے معاشرے میں بے سکونی پیدا کردی ہے الحمد للہ ہم مسلمانوں کو تو جن تعلیمات اسلامی سے نوازا گیا ھے ان پرہم عمل پیرا ہوجائیں تو نہ صرف خود بلکہ دوسرے بھی پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں، یعنی ہمارا کل آج سے زیادہ بہتر تھا جدید سہولیات نہ ہونے کے باوجود۔