اس دنیا میں طرح طرح کے لوگ ہیں اُن کی عجیب عجیب منطق ہیں کوئی دولت میں کھیل رہا ہے کھانے پینے کی افراط اتنی ہے کہ کسی بھی پروگرام پر لاکھوں روپے کھانے پینے پر اڑا دیئے جاتے ہیں اتنی وافر مقدار میں کھانے پکائے جاتے ہیں کہ لگتا ہے کوئی بادشاہ کا دربار ہے کہ اور تفریح عام ہے۔
شادی بیاہ کی تقریبات آجکل انتہائی حد تک خرافات کا شکار ہوتی جارہی ہیں ایک دکھا وے اورفیشن کا مقابلہ چل رہا ہوتا ہے۔ کیمرہ مینوں کی فرما نبر داریاں ایسے کی جاتی ہیں کی ہر ادا پر سانس تک روکنے سے نہیں کتراتے! کیا میزبان، کیا مہمان سب کو ہی شامل جرم ہی کہوں گی۔ اللہ پاک معاف فرما ئے ۔ لوگ تہذیب تمیز کو بالائے طا ق رکھ کر جو جی چاہے کرتے ہیں نہ وقت کی قدر نہ اشیاء خوردونی کی قدردانی، نہ رشتوں کا احترام، نہ حیا کی پاسداری، بس نمائش ہی نمائش۔ کھانا کھلتے ہی دھمال میوزک کا خاتمہ ہوتا ہے، ورنہ کان پڑے آواز نہ سنائی دے۔ اتنا شور شرابہ عجیب لوفر گانے ، دھوئیں ، چراغوں کی جھل مل ، ڈرون کی اڑان، ادائیں بلکہ نہیں خطائیں سر عام مجرے کے مترادف لگتی ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ چھوٹے تو چھوٹے بڑے بزرگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ خرافات پر بھی تماشائی بننا! امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو یکسر نظر انداز کرناتباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
جیسے ہی نکاح مکمل ہوا دعا ہوئی، فوراً خرافات شروع ہو جاتی ہیں یہ کیا ہے آگ اور دھوئیں کے بادل اور پٹاخے،دھما کے، گولیوں کی گھن گرج یہ سب بڑھتا ہی جا رہا ہے ہال میں جو ہو ا سو ہوا ، جب بارات لیٹ نائٹ دو ڈھائی بجے دلہن کو گھر لائی تو پورے محلے میں گویا بھونچال آ گیا۔ گولیوں کی گھن گرج ، فائر ورکس اور دھماکے، اللہ کی پناہ! جیسے قیامت ، سونے والے بھو کھلا کر اٹھتے ہیں اور آدھی رات کو چھوٹے بچوں کے رونے دھونے کی آواز یں عجیب منظر پیش کرتی ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں بلکہ لازمی قرار دیا گیا ہے ، اللہ کی پناہ! مجھے تو سب سے زیادہ افسوس رزق کے ضائع کرنے پر ہوتا ہے۔ لوگ بھر بھر کر پلیٹیں لے آتے ہیں اور اتنا قیمتی کھانا بچا بچا کر ضائع کرتے ہیں۔ سوائے چند کے جنہیں اللہ جزائے خیر دے.
خوراک جیسی نعمت کی ہمیں قدر کرنی چاہئے، ہمارے چاروں طرف لوگ خوراک کے حصول کیلئے کیسے دن رات ایک کرکے جتے ہوتے ہیں، لیکن نہایت افسوس کے ساتھ اس کی تقسیم کا عمل اتنا بُرا ہے کہ کہیں لوگ اپنا پورا خون پیسہ بہا کر بھی دو وقت کی روٹی نہیں کما سکتے تو کہیں یہاں سرمایہ دارانہ نظام کے چند لوگ یا افراد جو ملکی وسائل پر قابض ہوکر اس کی غیر منصفانہ تقسیم کے ذمہ دارہوتے ہیں، اسی غلط اورغیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے دنیا میں اور خصوصاً پا کستان میں ہزاروں بلکہ کروڑوں لوگ غربت کی چکی میں پِس رہے ہیں خود کشیاں کررہے ہیں ،کہیں لوگ قلتِ خوراک کی باعث بیمار ہو کر موت کے منہ میں پہنچے ہوئے ہیں، تو کہیں مجبور ہیں۔ شرم آنی چاہئے ان تمام لوگوں کو جو اس لکیر سے اوپر ہیں اور نعمتوں کو دھڑلے سے ضائع کر رہے ہیںاور ان مستحق افرادکا حق ماررہے ہیں۔ نعمتوں کو ضائع کرنا جرم کے مترادف ہے توا س لئے نعمتوں کو ضائع نہ کریں، اس کی قدر دانی کریں۔ خوراک کو ضائع کرکے کوڑے دان میں ڈالنے کے بجائے سوچیں آپ کا تھوڑا بہت ضائع کر دینے والا حصہ بہت سے لوگوں کیلئے کتنا ضروری ہے۔ روٹی کی قدرپہچانیئے اس کی قدر بھو کے کو ہی ہوتی ہے مزاج درست کر دیتی ہے۔ یعنی !
سب فلسفے چھان مارے ہیں
دال روٹی بھی سب پہ بھاری ہے