معاشی بحران، سیاسی بحران، اخلاقی بحران۔ آج وطن عزیز نجانے کس کس بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں ہر صاحب دانش حیران و پریشان ان گتھتیوں کو سلجھانے کی کوشش میں مزید الجھتا چلا جا رہا ہے۔ الجھے ہوئے ریشم کی طرح ہر گرہ کھلنے کی بجائے مزید الجھتی چلی جارہی ہے۔
کچھ زیادہ وقت نہیں گذراجب لوگ گھر میں گندم کی موجودگی کو غنیمت سمجھتے تھے۔ مائیں بچوں کو اسکول سے واپسی پر صبح کے پکے پراٹھے پر اچار کا مصالحہ یا گڑ کی ڈلی رکھ کر شکر کی تاکید کرتی تھیں اور نہیں تو لال مرچ یا ہری مرچ کی چٹنی کا لیپ اور باریک کٹے پیاز ہی سالن کا مزہ دے جاتے، گرمیوں کی دوپہروں میں بیسنی روٹی کے ساتھ پتلی لسی کا مگااور آموں کی دو قاشیں، شام میں دال چاول یا دودھ کی میٹھی کچی لسی کے ساتھ کراری تنوری روٹی نہ صرف پیٹ کا دوزخ بھرتی بلکہ دل شکر سے لبریز اور لب الحمدللہ کے ورد سے تر ہوتے، رات کو سیر ہو کر سوتے تو صبح پرندوں کی طرح اللہ کے بھروسے پر جاگتے۔
سیزن کی سیزن دوسوٹ اور عید بقر عید کے جوتے وہ مزہ دیتے جو آج کپڑوں سے بھری درازیں نہیں دیتیں۔ نہ روپیہ تھا نہ روپے کی ہوس، سادہ گھروں کے سادہ مکیں۔ نہ کسی سے نفرت نہ کسی پہ غصہ، اک دوجے کی محبت سے لبریز ہوتے، میٹھی عید کی سویاں اور بقر عید کی کلیجی وہ لطف دیتی جو رنگ رنگ کے پکوانوں سے بھرے دسترخوان نہیں دے پاتے، آج ہر فرد اللہ کے فرمان کی تصویر بنا ہوا ہے
اَلۡہٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۙ﴿۱﴾ حَتّٰی زُرۡتُمُ الۡمَقَابِرَ ؕ﴿۲﴾
ہمیں بھی ہماری منہ زور خواہشات اور نہ مٹنے والی حسرتیں قبروں میں پہنچا کر ہی چھوڑیں گی۔
گھر میں سال بھر کاغلہ، لہسن پیاز سے بھرے ٹوکرے، مصالحوں سے بھرے ڈبے، کپڑوں سے لدی الماریاں اور جوتوں سے بھرے ریک ہونے کے باوجود ہر فرد حالات کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ اللہ بخشے امی جان کہا کرتی تھیں ہمیشہ منہ سے اچھے جملے نکالو، بعض اوقات منہ نکلے کلمے پورے ہو جاتے ہیں۔
آج آپکے اور میرے ساتھ بھی یہی ہوا ہے سچ میں منہ سے نکلے جملے پورے ہو گئے ہیں، اب چاہے ناہل حکمرانوں کو الزام دیں یا بگڑتی معشیت کا رونا روئیں، خدا کی کرنی تو ہو کر رہے گی۔ ہماری ناشکری نے ہی یہ دن دکھائے کہ پیاز جیسی حقیر چیز بھی آسمان پر چڑھ بیٹھی اور آٹے جیسی بنیادی چیز بھی دسترس سے باہر ہو گئی۔ ایک شو شا تھی اور اندھی چکا چوند جو گلیمر کی دنیا فلموں، ڈراموں کے ذریعے دکھا رہی تھی، اچھوں اچھوں کی آنکھیں چندھیا گئیں اور ھل من مزید کے چکر میں سبھی زمیں پر آرہے۔
بھول گئے حبیب خدا ﷺ کا وہ فرمان کہ دنیا میں اپنے سے نیچے والوں کو اور دین میں اپنے سے اوپر والوں کودیکھو، ہم نے تو معیار ہی بدل ڈالے اب نہ تو کسی کے زہد و تقویٰ پر رشک ہے اور نہ کسی عالم باعمل پر،بلکہ رشک کی بجائے دل حسد وکینہ سے بھر گئےنتیجہ کیا نکلا کچھ حسد نے گرایا اور کچھ اندھی ہوس نے، ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے، ہر صاحب فکر کی زبان پر ایک ہی سوال ہےآگے کیا ہوگا؟ توکل کا بھی جنازہ نکل گیا۔
مایوسی کفر ہے، مومن آخری سانس تک امید پر جیتا ہے، رب منتظر ہے ہمارے پلٹنے کا، تو کیوں نا ہم سب ملکر اسی رب کی بارگاہ میں رجوع کریں، روئیں، گڑگڑائیں، لمبی خواہشات کو ترک کر کے لمبی ریاضتوں میں خود کو لگا دیں پھر دیکھیے آسمان سے بھی رزق برسے گا اور زمین بھی رزق اگلے، پھر زمینی وسائل بھی مٹھی میں ہوں گے اور قدرت کی طاقتیں بھی مدگار بن جائیں گی۔ ابھی نہ زمین بنجر ہوئی ہے اور نہ آسمان نے دروازے بند کیے ہیں۔ ابھی وقت ہے، چلو ! پلٹ چلیں، اکیلے نہیں اپنی نسلوں کے ہاتھ تھام کر اس رب کے حضور پیش ہو جائیں جو ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرتا ہے، جسے ایک دفعہ پکاریں تو وہ تین مرتبہ کہتا ہے بول میرے بندے بول، جو چاہتا ہےتو قانون فطرت بدل جاتے ہیں پھر بند کمرے میں بھی رزق پہنچتا ہےاور سمندر میں بھی رستہ بن جاتا ہے، جو کہتا ہے” کن” اور ہو جاتا ہے “فیکون” ۔