کشمیر آزاد ہو گیا،!

کھڑکی سے نظر آنے والے منظر میں عجیب ویرانی تھی، بچے صدیوں سے وہاں کھیلے نہیں تھے ۔ گھر کے باہر ہی اصل قید تھی جو کسی موت سے کم نہیں تھی کبھی کبھار یہ قید دروازے پر دستک دیتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہو جایا کرتی تھی ۔

کھڑکی کے باہر کیا دیکھ رہی ہو گل لالہ۔ بی جان نے اپنی بیٹی سے پوچھا جو پچھلے ایک گھنٹے سے کھڑکی سے باہر مسلسل جھانک رہی تھی۔

میرا بچپن اسی کھڑکی سے باہر جھانکتے گزرا ہے۔ بی جان ! میں نے کھڑکی کے اس پار اپنے بچپن کا سورج غروب ہوتے دیکھا ہے اور کبھی کبھار تو گولیوں کی گھن گرج نے مجھے کھڑکی سے باہر جھانکنے سے بھی محروم رکھا ہے۔ بی جان میرے بچپن کی تو شام ہوچکی ہے، لیکن میں آنے والے بچپن کو گھر سے باہر نکل کر کھیلتے کودتے دیکھنا چاہتی ہوں ، بے خوف ہوکر اسکول کالج جاتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ مرحا اب بڑی ہو رہی ہے، میں نہیں چاہتی کہ اس کے بھی بچپن کی شام دل میں ہزار حسرتیں لیے اسی کھڑکی سے باہر جھانکتے ہو جائے۔ اس کی خشک بنجر آنکھیں رو رو کر شاید تھک چکی تھیں اور دل بھی سخت ہو چکا تھا جس دل میں کوئی خواہش نہ تھی سوائے اس کے کہ جیسے اس کا بچپن گزرا ہے ویسے اس کی بیٹی اور باقی بچوں کا بچپن نا گزرے ۔

مرحا بہت سمجھدار اور بہادر بچی ہے اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے باپ کو شہید ہوتے دیکھا ہے وہ بہت بہادر ہے۔ جب سے اس کے بابا شہید ہوئے ہیں تب سے اس کے لبوں پر صرف ایک ہی نعرہ ہے!

میں اپنے بابا کے خون کا بدلہ لوں گی،۔ بی جان نے مہناز کو تسلی دیتے ہوئے اسے کھڑکی بند کرنے کا اشارہ کیا۔

بی جان اور مرحا کی باتیں جاری ہی تھیں کہ دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی ۔ مہناز سہم کر ایک طرف ہو گئی۔ بی جان نے مہناز کو مرحا کے پاس کمرے میں جانے کا کہا اور خود ہمت کر کے ایک طرف کھڑی ہو گئی اور دروازے کی جانب دیکھنے لگی، تاخیر کے سبب دروازہ کھٹکنے کی آواز مزید تیز ہوگئی کہ بے جان کو مجبوراً دروازہ کھولنا پڑا ۔ جیسے ہی بی جان نے دروازہ کھولا ایک بھارتی فوجی انتہائی بدتمیزی سے دروازے کو پاؤں کی ٹھوکر دے کر اندر داخل ہوا اور جارحانہ انداز میں کہنے لگا :

دروازہ کھولنے میں بہت دیر لگادی بڑھیا، ایسا کون سہ خزانہ ہے جو اندر چھپا رکھا ہے زرا ہم بھی تو دیکھیں۔” بھارتی فوجی کمرے کی جانب بڑھنے لگا باقی فوجی بھی اس کے پیچھے قدم بڑھا رہے تھے ۔

رک جاؤ اندر کوئی نہیں ہے، مہربانی فرما کر واپس چلے جاؤ۔ ” بی جان فریاد کرنے لگی۔

دیکھو بڑھیا ہم ایسا سرکار کے حکم پر کر رہے ہیں ، سرکار کا حکم ہے کہ گھروں کی تلاشی لی جائے۔” فوجی نے کمرے کا دروازہ پاؤں کی زوردار ٹھوکر سے کھولا ۔ مرحا اور مہناز کمرے کی ایک طرف سہم کر بیٹھی ہوئی تھیں ۔

تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہو گا، چلو اٹھو اور زیادہ شور مچانے کی ضرورت نہیں۔” فوجی نے مہناز کے کان میں سرگوشی کی جسے مرحا نے بھی سن لیا۔

آپ لوگ میری ماما کو نہیں لے کر جاسکتے، میرے بابا کو بھی شہید کر دیا اب میری ماما کو بھی مجھ سے دور کرنا چاہتے ہو، خدا کے لیے چلے جاؤ۔ ” مرحا روتے ہوئے فریاد کرنے لگی۔

فوجی نے باقی فوجیوں کو اشارہ دیا جس پر وہ مہناز کو زبردستی ساتھ لیجانے لگے مرحا نے جب مزاحمت کی تو فوجی نے اسے دھکا دیا اور اس کا سر گلدان میں جا کر لگا، زخم اتنا گہرا تھا کہ مرحا کی فوری طور پر موت واقع ہوگئی۔ بی جان اور مہناز مرحا مرحا پکارتے ہوئے رونے لگے جس کی وجہ سے فوجیوں کو خالی ہاتھ ہی گھر سے لوٹنا پڑا مگر وہ دھمکی دے کر گئے کہ وہ دوبارہ ضرور آئیں گے ۔

مہناز کو اس واقع نے بہت خوفزدہ کر دیا تھا اور دوسری طرف مرحا کی جدائی اسے اندر سے کھا رہی تھی ۔

جنت میں ہو گی مرحا، خوش قسمت ہے وہ ۔ تم بالکل بھی پریشان نا ہو ، اللہ نے اس کے لیے آسانی پیدا فرمائی ہے۔ وہ گھر اس کے لیے اس گھر سے کئی درجے بہتر ہے۔”

بی جان مہناز کی ہمت بندھانے لگی ۔

بی جان میں اسے یاد تو کرتی ہوں مگر میں اس کے لیے نہیں اپنے اور آپ کے لیے پریشان ہوں ۔ کاش ہم دونوں کو بھی اللہ جلد اپنے پاس بلا لے اور ہماری تکلیفیں دور ہو جائیں۔ ” مہناز رب سے موت کی التجاء کرنے لگی جس پر بی جان نے صدق دل سے آمین کہتے ہوئے رونے لگیں۔

کچھ دنوں بعد بی جان بستر سے آ لگی اور بیماری نے انہیں موت کے قریب تر کر دیا۔ ایک دن بی جان نے خواب دیکھا جس کا زکر وہ مہناز سے کرنے لگیں:

مہناز آج میں نے بہت خوبصورت خواب دیکھا ہے، میں دیکھتی ہوں کہ کشمیر آزاد ہو گیا ہے۔ وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بھی ہیں۔ میں وہاں بہت خوش ہوں مرحا، وقار اور تیرے ابا بھی ہیں میرے پاس ۔” مہناز اسے دلچسپی سے سنتے سنتے ایک دم پریشان ہو گئی۔اور میں، میں تھی کیا وہاں بی جان؟  یہ پوچھتے ہوئے مہناز کی آنکھوں سے آنسو نکل کر بہہ گیا جب بی جان نے نفی میں جواب دیا ۔ چند دنوں بعد بی جان اس دنیا سے کوچ کر گئیں ۔ مہناز پر ایک ایک منٹ اس قدر وزنی ہو چکا تھا کہ وہ صرف اس زندگی سے چھٹکارا چاہتی تھی ۔

سن لے ربا دہائی وے

لمبی ہو گئی جدائی وے

کشمیر کو دے دے رہائی وے

ظالم کی کر دے تباہی وے

وہ اپنی ڈائری پر یہ اشعار ہی لکھ رہی تھی کہ دروازہ زور زور سے کھٹکھنے لگا، اسے معلوم ہو چکا تھا کہ بھارتی فوج دوبارہ اس کے دروازے پر دستک دے رہی ہے وہ گھر کی ایک دیوار سے سمٹ کر اپنے رب سے موت کی بھیک مانگنے لگی ۔