توں کی جانے بھولیے مَجّے، نارکلی دِیاں شاناں
ون سوَنّے گاہک نی ایتھے، بھلیو بَھلی دُکاناں
انور مسعود صااحب کا یہ شعر کسے نہیں یاد ہوگا- لاہور شہر اور یہاں کی رونقیں، دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، یہ ساتھ رہتی ہیں-
ٹآلیمی یا بطلیموس ایک لاطینی ماہر ریاضیات، ماہر فلکیات، اور جغرافیہ دان نے اپنی ایک کتاب‘‘جیو گرافیہ‘‘ میں لا بوکلا نامی شہر کا ذکر کیا جو چناب اور دریائے راوی کے قریب ہے- عام خیال یہی ہے کہ یہ لاہور کا ذکر ہے- اس کے بعد ایک چینی یاتری نے 630 صدی عیسوی میں ایک شہر کا ذکر کیا- دونوں کے اذکار میں ایک بات مشترک تھی کہ ایک شہر جہاں کے لوگ خوشحال اور خوش مزاج ہیں- اس کے بعد 982 صدی عیسوی میں فارسی کی ایک کتاب‘‘حدود العالم‘‘ میں لاہور شہر کا باقاعدہ ذکر کچھ یوں ملتا ہے- لاہور، ایک ایسا شہر جہاں‘‘متاثر کن مندر، بڑے بازار اور بڑے باغات‘‘ اپنی طرف کھینچتے ہیں- ابتداء میں لاہور شہر کا نام مختلف کتب میں مختلف ملتا ہے جیسے ایرانی جغرافیہ دان اور مورخ ابو ریحان البیرونی نے گیارھویں صدی میں اپنی ایک تصنیف‘‘قانون‘‘ میں اس کا نام لحاوار درج کیا- مختلف مسلمان مورخین لوحآوار کے نام سے شہر کا ذکر کرتے- امیر خسرو نے شہر کا ذکر لاہونور کے نام سے کیا- بارہویں صدی میں یاقوت الحماوی نے اس شہر کا نام لاہور درج کیا کیونکہ اس وقت اسی نام سے یہ شہر مشہور تھا-
غزنوی سلطنت میں یہ دارالخلافہ بنا اور ایاز جس نے گورنر کے طور پر شہر کا نظام سنبھالا اور 1030 سے 1040 تک کے عرصے میں یہاں دروازے تعمیر کروائے- اس کے دور میں شہر ایک ثقافتی اور علمی مرکز بن گیا، جو شاعری کے لیے مشہور ہے۔ اس شہر کے بارے میں تاریخ پر جتنی بھی نظر دوڑائی جائے کچھ باتیں مشترک نظر آتی ہیں- یہاں کی خوشحالی اور پر امنی-
کووڈ کی لہر آنے کے بعد کافی عرصہ پاکستان جانا نہیں ہوا- اس بار جب اپنے شہر قدم رکھا تو ہر بار کی طرح دل ہمیشہ کی طرح بہت خوش تھا- اپنا بچپن، لڑکپن اور اس کے بعد کے کچھ سال وہیں گزرے- سب کچھ آنکھوں کے آگے ایسے چلنے لگتا ہے جیسے کل کی ہی بات ہو- گرمی کی شامیں باہر گلی میں کرسیاں رکھ کر ابو جی، تایا ابو اور پھپھو وغیرہ سب مل کر بیٹھا کرتے- گلی میں سبھی اپنے ہی رہتے تھے تو بس ہر دن ایک محفل سجتی تھی- سردیوں میں شام کو سب اکٹھے ہو کر سردی کا مزہ لیتے-
کچھ عمر ہوئی تو ہم سب مل کر باہر کافی پینے جاتے- لاہور میں کبھی رات نہیں ہوتی تھی- دن ہو یا رات ایک جیسا ہی ماحول رہتا تھا- خوشگوار اور پر امن- پھر جب ملک چھوڑا تو کچھ سال بعد ذیادہ تر ہم عصروں کے پاس پرانے موبائل نظر آئے- دکھ ہوا یہ سوچ کر کہ شاید مالی حالات ٹھیک نہیں مگر بعد میں معلوم ہوا کہ سستا موبائل اس لیے رکھتے ہیں کہ کوئی چھین لے تو ذیادہ دکھ نہیں ہوتا- بہت عجیب سا لگا- کچھ عرصہ لاہور میں رات کو دس بجے سے پہلے پہلے گھر پہنچنا ضروری تھا کہ کہیں کوئی زیور, بٹوہ یا موبائل یا سبھی کچھ نہ چھین لے- بہت دکھ ہوا کہ وہ شہر جہاں دن اور رات ایک ہی جیسے تھے- ساری زندگی کبھی سب کے ساتھ رت جگے مناتے تو آدھی رات کو پراٹھے بنوا کر لاتے اور سب مل کر کھاتے- فجر کے بعد صبح ناشتے کے لئے نکل جاتے- جب کسی کے گھر اکٹھے ہوتے تو بڑوں کے ساتھ اور اپنے ہم عصروں کے ساتھ رات رات بھر لبرٹی یا فورٹریس گاڑی گھماتے پھرتے- کبھی کوئی خوف تھا نہ کوئی ڈر- حالات بدلے، ماحول بدلا، دن رات بدل گئے-
اس بار ایک دکھ میں اور اضافہ ہوا کہ اب لاہور میں ایک نئی بیماری آگئی ہے جسے اسموگ کہتے ہیں- جب کھانسی رکنے کا نام نہ لے- ڈاکٹر علاج کرنے کے بجائے مریض بنانا ذیادہ پسند کرے اور مشورہ یہ ہو کہ ابھی آپ کو عادت نہیں ہے- کچھ عرصہ یہاں رہیں تو عادت پڑ جائے گی- (بیمار رہنے کی عادت؟) پھر اسموگ اتنا تنگ نہیں کرے گی- یہ سب باتیں ناچیز کی سمجھ سے بالکل باہر ہیں-
عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ لاہوری اتنے سمجھدار نہیں- کیونکہ خان صاحب کو ووٹ نہیں دیتے- ایمان کے لمبے لمبے دعوے کرنے والے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حد درجہ متاثر خان صاحب یہ بھول گئے کہ صفائی نصف ایمان ہے- ووٹ نہ ملنے کا بدلہ شہر کو نظر انداز کر کے لیا- دنیا بھر میں بڑے بڑے شہروں کی خوبصورتی اور صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے تاکہ سیاح کھنچے چلے آئیں- یہاں معلوم پڑا کہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور اور فیصل آباد کے نام شامل ہیں- کراچی کے بعد لاہور پاکستان کے آلودہ ترین شہروں میں دوسرے نمبر پر ہے- حکومت بدلی لیکن سیاست دان وہی رہے- شہری کس بد حالی کا شکار ہیں اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں- آپس کی لڑائیاں، طاقت اور کرسی کے پیچھے دھکا مکی، وہ جو کہا کرتے تھے کہ شہباز شریف کے دور میں کم سے کم شہروں کی حالت اچھی رہتی ہے آج وہ بھی سوچ میں پڑے ہوئے ہیں کہ ان کے برخوردار بھی ان کے نقش قدم پر نہ چل سکے اور کرپشن حلال ہے کہ حرام جیسے بھاشن اسکول کے بچوں کو دیتے نظر آئے-
بچپن سے ہر بار بجلی و پانی مہنگا ہونے پر سنتے چلے آئے کہ ایک روز تو اس ملک میں سانس لینا بھی محال ہوگا- اور اب ایسا دکھائی دیتا ہے- جب ذیادہ تر لوگ سانس کی بیماریوں کا شکار، بچے ڈپریشن جیسی بیماری میں مبتلا، دل کے امراض ایسے جیسے کوئی فیشن ہو کہ آج ایک کو ہارٹ اٹیک ہوگا تو کل کسی دوسرے کو- ایک عام پاکستانی جو سیاست پر بحث کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا آج وہ اس لفظ کو سننا بھی نہیں چاہتا- اپنی اپنی سیاسی پارٹی کو لے کر عام لوگوں میں گرما گرم بحث سننے کو ملتی تھی کبھی ہنسی آجاتی کبھی سنجیدہ ماحول میں بدل جاتی- مگر اب لوگ کسی سیاستدان کا نام بھی سننے کو تیار نہیں کیونکہ اب ایک عام پاکستانی بنیادی ضرورتوں میں اتنابری طرح گھرا ہوا ہے کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون آرہا ہے کون جا رہا ہے- ملک و قوم کے معاملے میں سیاستدان نام کی مخلوق ایک معاملے میں تو بہت کامیاب رہی کہ عام آدمی کو بنیادی ضرورت کے لیے اتنا ترسا دو کہ جب روٹی سامنے ہو تو اپنی شخصی آزادی بھول جائے- آج ملک کی یہ حالت ہے کہ سانس لینا بھی محال ہے- یہ جملہ ایک فرضی مثال تھی مگر اپنی طاقت کے نشے میں گم اور اپنی اپنی جیبیں بھرنے میں مشغول حکمران و اپوزیشن کی آلودگی اتنی بڑھ گئی کہ اب یہ قوم کھلی ہوا میں سانس بھی نہیں لے سکتی-
انور مسعود صاحب نے لکھا تھا؛
توں کی جانے بھولیے مَجّے، نارکلی دِیاں شاناں
واپسی پر ذہن میں یہی گھومتا رہا کہ انار کلی دیاں شاناں اب جانے کیسی ہوں۔ اب شاید ان کو لاہور شہر دیاں اسموگا بارے کچھ لکھنا چاہیے-