جماعت اسلامی ہی کیوں؟

کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بلآخر الیکشن کمیشن نے ٹھوس فیصلہ کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے حتمی تاریخ 15جنوری پر مہر لگا کر پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پیپلزپارٹی اپنی نالائقی چھپانے کے لیے انتخابات سے بھاگنے کا طریقہ ڈھونڈ رہی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ الیکشن ملتوی ہوں تاکہ وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں آسکے اور جتنا اس شہر کو لوٹا ہے اس پر کچھ رسمی سی سرخی پائوڈر لگا کر عوام کو اپنی جانب متوجہ کیاجائے۔ لیکن ان کی یہ درخواست مسترد ہوئی اور شرجیل میمن جو جوش وجذبات میں آکر دودن پہلے یہ کہہ چکے تھے کہ پندرہ جنوری کو بلدیاتی انتخابات نہیں ہورہے، منہ کے بل جا گرے۔ اسی طرح حکومتی ایوانوں کے مزے لوٹنے والی ایم کیو ایم بھی اپنی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھانے اور ساتھ ہی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے بعد اسے اپنی شکست واضح نظرآرہی تھی کہ پھر سے تمام دھڑوں نے اتحاد کرلیا۔

دونوں پارٹیوں کی منصوبہ بندی سے الیکشن کمیشن کو چکر دینے کی کوشش کی گئی اوردونوں پارٹیاں اپنی شکست دیکھتے ہوئے الیکشن کو بلاجواز التواء کا شکار بنانے کیلیے کوشاں رہیں تاہم الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کا اٹل فیصلہ سنا کر دونوں پارٹیوں کے منصوبوں پرپانی پھیر دیا۔ اب صرف دھاندلی ہی واحد راستہ ہے جو انہیں بچاسکتی ہے۔ باقی حقیقی ووٹوں نے ان دونوں پارٹیوں کویکسر مسترد کردیاہے۔

حافظ نعیم الرحمن کا تعلق جماعت اسلامی سے اور وہ کراچی کے امیر ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے جس پر کرپشن کا آج تک کوئی بھی الزام نہیں لگا۔ دشمن بھی ان کی خدمات کے معترف ہیں۔ جماعت اسلامی کی کراچی سے متعلق کی گئیں مہم نے کراچی کو بڑے نقصانات سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس میں کراچی کے بلدیاتی قوانین میں ترامیم اہم ترین اقدام سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح حق دو کراچی مہم نے کے الیکٹرک جیسی بے لگام کمپنی کو لگام ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا اور مجبور کراچی الیکٹرک کو جماعت اسلامی کی حق دو کراچی مہم کے سامنے جھکنا پڑا اور عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد بھی کرنا پڑا۔ ورنہ کراچی الیکٹرک پاکستان کا واحد ادارہ ہے جو قانون سے بالا تر سمجھا جاتا ہے۔

جماعت اسلامی کا حال ہی میں بنوقابل پروگرام نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھرمیں مقبول ہوا۔ دیار غیر سے لوگوں نے اس پروگرام کے حوالے سے مثالیں دیں۔ بنو قابل کراچی کے نوجوانوں کے لیے خاص تحفہ سمجھا جارہاہے۔ اس پروگرام کے ذریعے ناصرف پڑھے لکھے نوجوان بلکہ وہ خواتین جو گھرمیں رہ کر کچھ کرنا چاہتی ہیں ان کے لیے بھی آگے بڑھنے کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس پروگرام سے کراچی کے لاکھوں نوجوان آج استفادہ حاصل کررہے ہیں۔

جماعت اسلامی اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود کراچی کے دشمنوں کے سامنے ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی۔ کراچی کو ڈکیتوں کے رحم وکرم پر چھوڑنے والوں کے سامنے بھی جماعت اسلامی ہی سوال بن کر کھڑی ہوئی۔ کسی جماعت نے اتنی ہمت نہیں کی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے سوال کرے۔ لیکن جماعت اسلامی نے کراچی کے لیے ان کے سامنے بھی سوال رکھے اور ان سے جواب بھی طلب کیے۔ کراچی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر ہم صرف لیاری کی بات کریں تو جماعت اسلامی نے لیاری میں جس قدر کام کیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ جب کہ لیاری ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا قلعہ سمجھا جاتا تھا۔ حکومتی جماعت کے قلعہ میں رہ کر وہاں کام کرناآسان کام نہیں، لیکن جماعت اسلامی نے وہاں بھی کئی پروگرامز شروع کرکے پیپلزپارٹی کے قلعے میں دراڑ ڈال کرلیاری کے لوگوں کوفائدے پہنچائے۔ جگہ جگہ آرو پلانٹس، الخدمت ویلفیئر، اسکولز سسٹم، تعلیم بالغاں، مدارس ومساجد قائم کرکے لیاری کے دلوں میں اپنے لیے ایک خاص مقام حاصل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج لیاری جماعت اسلامی کو اس کی خدمات کے عوض اسے ووٹ کا حقدار بھی سمجھتا ہے۔

پیپلزپارٹی یا ایم کیو ایم دونوں نے حکومت میں رہنے کے باوجود کراچی کو کبھی اپنا نہیں سمجھا۔ کراچی کا دکھ کبھی محسوس تک نہیں کیا۔ کراچی کے نوجوانوں کو محض اپنی پارٹی کا آلہ کار بنائے رکھا اور انہیں روزگار کے آسرے دے دے کر ان سے کام لینے اور انہیں پیچھے لگائے رکھنے کے سوا کچھ نہ کیا۔ آج کراچی کا نوجوان ان دونوں پارٹیوں سے اس لیے بھی خائف ہے کہ انہوں نے کبھی ان کے دکھوں کا مدوانہیں کیا۔ ایسے میں جماعت اسلامی ہی واحد جماعت رہی جس نے ان نوجوانوں کو کوئی آسرا نہیں دیا بلکہ یہ کہا کہ تم کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہو، تم کسی بھی جماعت کو پسند کرتے ہو، تم کسی بھی قوم ومذہب سے ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا، آؤ اور بنو قابل اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر خودکفیل ہوجاؤ۔ یہ پروگرام کراچی کی لائف لائن ہے، جو حکومت وقت کا کام تھایہ کام جماعت اسلامی نے اپنے بل بوتے پر شروع کیا۔

کراچی نے سب کو مواقع دیے کہ وہ اس کی تقدیر بدلیں، مگر جو بھی آیا سب نے اپنی اپنی تقدیریں بدلیں اور چلتے بنے۔ کسی نے کراچی کا نہیں سوچا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج کراچی مایوسی کے عالم میں کھڑا ہے جہاں جماعت اسلامی ہی ایک واحد امید کی کرن ہے جو اسے اندھیروں سے نکال کر واپس روشنی کے شہر میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ جماعت اسلامی ہی نامکمل منصوبوں کو مکمل اور غیر ضروری منصوبوں کا خاتمہ کرنے کی جرات رکھتی ہے۔

کسی کے گھر آٹا نہیں تو جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑی ہے، کسی بہن بیٹی کی شادی ہے تو جماعت اسلامی ساتھ کھڑی ہے، روزگار کا مسئلہ ہے تو جماعت اسلامی ساتھ ہے، اپنا کاروبارشروع کرنا ہے تو کراچی کا نوجوان بلاسود قرضے کے لیے جماعت اسلامی کی طرف دیکھتا ہے، پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کے تقریبا شعبوں میں جماعت اسلامی نے اپنا لوہا منوایا۔ تھر میں جب بچے بھوک سے مررہے تھے تو جماعت اسلامی ہی تھی جس نے وہاں ناصرف خوراک کا بندوبست کیا بلکہ وہاں پر اسپتال تک قائم کردیے، پینے کا پانی مسئلہ سامنے آیا تو کنویں کھدوا دیے۔ بے روزگاروں نے صدائیں دیں تو روزگار کے مواقع فراہم کردیے۔ کبھی یہ تک نہیں کہا کہ آپ ہمارے ووٹر نہیں تو ہم آپ کی خدمت کیوں کریں۔

میں صرف بلدیہ ٹائون کے ہی ایک علاقے کا ذکر کروں گا جب وہاں کے لوگوں نے کام کے سلسلے میں پیپلزپارٹی سے رابطہ کیاتو آگے سے جواب ملا یہاں ہمارے ووٹر نہیں، ہم یہاں کام نہیں کرائیں گے۔ جب کہ جماعت اسلامی نے کبھی ایسا کچھ نہیں کہا بلکہ ہمیشہ بے لوث خدمت پر یقین رکھا۔ اسمبلی کے سامنے دھرنے کے دوران ہم نے ڈاکٹر، انجینئرز، پروفیسرز کو کارکنان کے بیچ کارکن کے طورپر دیکھا، وہاں نا شباب تھا، نہ کوئی دوسری عیاشی کا سامان، بارش میں بھی یہ لوگ کھڑے رہے اور یہ صرف کراچی کے لیے آئے تھے۔ ان کا ذاتی کوئی مسئلہ نہیں تھا، یہ بھی دوسری پارٹیوں کی طرح گٹھ جوڑ کرکے ایک سائیڈ ہوجاتے اور اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود مزے کر سکتے تھے، مگر یہ جماعت جہاں سوال کرتی ہے تو وہیں یہ قوم کے سامنے خود کو جواب دہ بھی سمجھتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج نوجوانوں کی اکثریت جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمن پر آنکھ بند کرکے یقین رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی میں خاص بات یہ کہ یہاں مروثی سیاست نہیں۔ باپ، بیٹا، بیٹی، بھتیجی، چاچی، مامی، پھوپھا، پھوپھی والی کیٹیگیریاں نہیں۔ یہاں باریاں بھی نہیں ہوتیں۔ پارٹی انتخابات کا شفاف طریقہ رائج ہے۔ جب کہ دیگر پارٹیوں میں یہ خصوصیات منشور کی حدتک بھی نہیں ملتیں۔ یہاں قابلیت اورمیرٹ کو پہلا دیکھاجاتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ اس جماعت کا ہر کارکن اپنے اپنے حصے کا کام ایمانداری سے کررہا ہے۔ ملک میں کہیں بھی کوئی آفت یا مصیبت آئے تو سب سے پہلے جماعت اسلامی ہی ہے جو امدادی سامان کے ساتھ ان جگہوں تک روانہ ہوتی ہے۔ دوسرے سوچ رہے ہوتے ہیں اور جماعت اسلامی کے کارکن وہاں امدادی کام بھی شروع کردیتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کو آج نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں پر برتری حاصل ہے۔

جماعت اسلامی ہی واحد جماعت ہے جو کراچی کو اس کا حق دلانے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ گلی گلی اور محلے محلے میں جماعت اسلامی کی گونج گرج سنائی دے رہی ہے۔ ہر نوجوان اپنا ووٹ جماعت اسلامی کو دینے پرخوشی خوشی راضی ہے اور یہ بات صرف ایک گمان کی حدتک نہیں بلکہ مختلف سروے کے ذریعے سامنے آئی۔ حافظ نعیم الرحمن کی پوری ٹیم جس طرح بلدیاتی انتخابات منعقد کروانےکےلئے لگی رہی یہ ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی کو ایک بااختیار میئر کی اشد ضرورت ہے جو صرف جماعت اسلامی ہی دے سکتی ہے۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔