اللہ نے جب انسان کو پیدا کیا تھا نا تو ساتھ فلسفہ حیات بھی دیا تھا جسے دین بھی کہا جاتا ہے، ضابطہ بھی، نظام، شریعت، منہاج اور طریقہ بھی۔ ہوا کیا ! انسان نے بغاوت کر دی اس نظام کے خلاف۔ اس کو اپنے کچھ فوائد نظر آئے اس ضابطے سے انحراف میں۔ لہٰذا سب سے پہلی بار اللہ کے ضابطے پر ‘قابیل’ معترض ہوا یہاں تک کہ قتل جیسا سنگین جرم اس سے سرزد ہوا۔ جرم کے بعد جرم کی سنگینی کا احساس بھی ہوا، ندامت اور پچھتاوے نے گھیرا مگر نفس کی پوجا کی خاطر کی گئی بغاوت کی بنا اسی نے رکھی۔ جان کی بے حرمتی کرنا اسی نے سکھائی۔
ہم کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، صدقہ کرتے ہیں تو ہم اچھے ہیں، نیک ہیں، صالح ہیں، اللہ ہمیں بخش دے گا۔ یہاں ایک لمحہ ٹھہر کر ذرا سوچئے آخرت میں اعمال کا تولا جانا، پلڑے ہلکے یا بھاری ہونا آخر کیا معنی رکھتا ہے۔ اگر سارے کلمہ گو جنتی اور انکار کرنے والے دوزخی ہیں تو یہ تو دنیا میں بھی ظاہر ہے۔ یقینا آخرت اس لئے قائم ہو گی کہ ذرہ برابر نیکی اور رائی برابر بدی بھی اللہ کے علم میں ہو گی اور اللہ چوںکہ عادل ومنصف ہے اس لئے وہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دے گا۔
ہم شاہراہ زندگی پر چلتے ہوئے جہاں بھی اللہ کے ضابطے پر دل میں تنگی محسوس کرتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں خواہ یہ قولی ہویاعملی، بس سمجھ لیجئے کہ ہم اللہ کے ضابطے پر معترض ہیں، ہم اپنے نفس کے ضابطے پر چلتے ہیں تو ظاہری بات ہے زمین میں فساد پیدا ہوتا ہے، خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ اب اللہ کی روش پر کار بند لوگ بھی ان کی بالا دستی قبول نہیں کر سکتے کہ یہ خلاف فطرت ہے اور یہ لوگ بھی اپنی نفسانی اغراض جسے یہ اپنے طریقے سے پورا کرنا چاہتے ہیں سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔ نتیجہ ظاہر ہے،یا جنگ ہو گی اور دین کی برتری ثابت کر دی جائے گی یا باطل غالب آ جائے گا۔
اللہ نے رہنے سہنے اوڑھنے پہننے یعنی تمدن، معاشرت، معیشت، سیاست سبھی کے اصول وضوابط دیئے، امر ونواہی کے ذریعے، ترغیب ترہیب کے ذریعے، غوروفکر کی دعوت دے کر، احسانات اور نشانیاں دکھا کر۔ اب بھی اگر ہم اللہ کی فرماں روائی کا پرچار کرنے کی بجائے اپنی بالادستی کے خواہاں ہوتے ہیں تو خرابیاں جنم لیتی ہیں،آخرت کے ہونے کی سخت ضرورت محسوس ہوتی ہے تا کہ نفس کی سر بلندی چاہنے والوں کی “لگی لپٹیوں کی قلعی بھی کھلے اور راستی پر گامزن مگر ‘لگی لپٹیوں’ اور ‘چالبازیوں’ سے اپنا دامن آلودہ نہ کرنے والوں کی معصومیت بھی ثابت ہو۔ اللہ ہمیں نفس کے شر سے محفوظ رکھے اور اپنے ضابطے کی علمبرداری کرنے کی توفیق دے۔آمین