پیاری بیٹی قراۃ العین!
آج تم ایک برس کی ہو چکی ہو۔سب تمہیں قیمتی تحائف دیں گے، جن کو تم یاد بھی نہیں رکھ سکو گی۔ تمہارے بابا ایک چھوٹے سے لکھاری ہیں، اسی لئے الفاظ کو کسی بھی مادی تحفے سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں۔ ویسے تم ابھی اتنا چھوٹی ہو کہ تمہیں نہ تو تحفے کا کوئی علم ہے نہ ہی اس سے جڑے احساسات کو سمجھ سکتی ہو۔لیکن میرے نزدیک تحفے دیرپا نہیں ہوتے ایک مدت بعد یہ ٹوٹ جاتے،گم ہو جاتے، یا ختم ہو جاتے ہیں اور لکھے ہوئے سب احساسات محفوظ ہو جاتے ہیں۔ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں کہ تم نے مجھے پاپا کہنا شروع کیا ہے۔میں نہیں جانتا کہ تم جب پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہو گی ان خطوط کو پڑھو گی بھی یا نہیں، آیا پڑھ کر تمہیں بھلے لگیں یا برے۔لیکن بیٹا تم سے جڑے پیار اور احساسات کو بیاں کرنے اور ان کو محفوظ رکھنے کا اس سے اچھا طریقہ مجھے کوئی بھی نہیں مل سکا۔
تمہارے پیدا ہونے سے پہلے ہی حسنین جمال صاحب کے بیٹی کے نام خط پڑھ کر میں نے بھی سوچ رکھا تھا کہ اللہ نے رحمت سے نوازا تو میں بھی اپنے احساسات کو خطوط کی شکل دوں گا۔
ابھی آپ اتنے ننھے منھے سے بے بی ہو کہ یہ خط نصیحتوں سے پاک ہے۔جب تک آپ پڑھنے لکھنے اور سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے تب تک ان خطوط میں نصیحتوں کا سلسلہ تھما رہے گے۔
آپ کا نام قراۃ العین میں نے رکھا ہے، یہاں بھی میں ضد کر گیا کسی کی نہ سنی نہ اپنے گھر والوں کی نہ سسرال والوں کی نہ تمہاری اماں کی۔مجھے یہ نام اس لئے پسند ہے اس کے معنی آنکھوں کی ٹھنڈنک،آنکھوں کی روشنی کے ہیں اور بیٹیاں تو واقعی قراۃ العین ہوتی ہیں آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا چین ہوتی ہیں۔
آج اپنے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، میں ایک بہت ہی اڑیل اور ضدی لڑکا تھا۔مجھے اپنی بات منوانے اور اپنی اہمیت کو بڑھانے کی عادت سی ہو چکی تھی۔گھر میں سب کو ڈر ہی رہتا تھا کہ اگر کسی بات پر روٹھا تو جلد مانوں گا نہیں۔تب وسائل تو تھے مگر اتنے وافر نہیں تھے، ایک دفعہ امی مجھے اپنے ساتھ بازار لے گئیں خریداری سے واپسی پر مجھے کچھ مزید کھلونے نظر آئے تو میری ادھر ہی ضد شروع ہو گئی، امی کہتی ہیں کہ تب رقم قریب ختم ہو چکی تھی اور میں نے ضد میں جو بازار سے خریدا ہوا سامان پکڑا ہوا تھا اس سمیت دوڑ لگادی تھوڑا فاصلہ ڈال کر بلیک میل کرنا شروع کر دیا کہ مجھے میرے پسندیدہ کھلونے نہ دلائے گئے تو یہ سامان گندی نالی میں پھینک دوں گا۔تب امی کو بہت تنگ کیا، آج سوچتا ہوں تو اپنی نادانیوں پر ہنسی کے ساتھ پچھتاوا بھی ہوتا ہے کہ کس قدر میں نے اپنے والدین کو پریشان کیا۔نہ بہت زیادہ شرارتی تھا نہ آوارہ طبیعت، پڑھائی میں شروع سے ہی سب بہن بھائیوں سے بہتر تھا۔اسی وجہ سے والدین میری ضد اور انا کو قبول یا نظر انداز کر دیا کرتے تھے،کبھی شاید مار پڑی ہو، سچ میں ایسا کچھ یاد بھی نہیں۔آج بالکل بدل چکا ہوں عقل و شعور نے میرے اندر سے انا کو اکھیڑ کر کہیں دور پھینکا دیاہے۔احساس نے میرے دل و دماغ پر غلبہ حاصل کرلیا ہے،طبیعت میں کرواہٹ کی بجائے نرم لہجے نے جگہ لے لی ہے۔گھر میں تب سب مجھے تنبیہ کرتے تھے کہ تمہار ے بچے جب ایسے کیا کریں گے تب پتا چلے گا۔اول تو مجھے اپنی نادانیوں پر آج افسوس ہوتا ہے مگر یہ وقت تو اب بیت چکا ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ آج صاحب اولاد ہوں اور تمہارے جیسی پیاری رحمت اور ننھی سی کلی میرے آنگن کی رونق ہے۔جس طرح میرے والدین میری ہر جائز ضد پوری کیا کرتے تھے، میں بھی کوشش کروں گا تمہاری ہر جائز ضد پوری کیا کروں۔اللہ مجھے ہمت و استقامت عطا کرے کہ میں تمہار ے آنے والے کل کو بہتر بنانے میں ایک بہتر باپ اور بہتر معاون بن سکوں۔اس بار بس اتنا ہی کافی ہے۔
بیٹا بہت بہت سالگرہ مبارک۔ اللہ صحت والی، خوشیوں بھری ہنستی مسکراتی لمبی زندگی عطا کرے۔آمین
تمہارے بابا