سرد موسم کا گرم طوفان

سردی کے موسم میں جہاں کام کاج کرنے کے جذبات کو بھی چائے ،سوپ اور کافی سے مہمیز دے کر گرمی شوق تک لانا پڑتا ہے ایسے میں تین بار ملتوی شدہ انتخابات کے چوتھی بار التواء کے خطرے کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانے کے لیے کل ایک اکیلے حافظ نعیم الرحمن بھائی کی للکار سنائی دی،

سنو تمہیں ہر صورت کراچی میں بلدیاتی الیکشن کروانے ہوں گے وگرنہ ،،،،،،،،،،، دھرنا ہوگا۔

یہ کچھ انہوناعلان نہیں پچھلے برس کے دھرنے کا وہ نعرہ تھا جسے حافظ نعیم الرحمن بھائی کے سنگ اہل کراچی نے مل کر لگایا تھا

“اب کے برس ہم اہلِ کراچی اپنا پورا حق لیں گے”

مگر سندھ گورنمنٹ بلدیاتی انتخابات میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے وہ بھی اس لسانی جماعت کے ساتھ ساتھ مل کر

کہ جس نے اس شہر کے بچوں کو گولی اور گالی کی سیاست دی وہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ نوے کی دہائی ہے اور ہم جیسے ہڑتال کی کال دیکر بورڈ کے امتحانات تک ملتوی کرا دیا کرتے تھے وہی سب آج بھی دہرائیں گے تو سندھ حکومت اور اس کی ذیلی لسانی مافیاسن کے کہ جس زبان کے نام پر تم نے اہل زبان کی اقدار پر بٹہ لگایا تھا اسی زبان کے بولنے والے قرآن کو سینوں میں بسا کر اعمال میں لا کر اپنے سنگ تمام زبانوں کے ذائقے اور مٹھاس سموتے ہوئے اللہ اکبر کے نعرہ مستانہ کے ساتھ آج نکلنے لگے ہیں کراچی کے حقوق کے لیے دھرنا دینے اگر تم کراچی والوں کے ساتھ ان کے حقوق دلوانے کے لیے سنجیدہ ہو تو اٹھو آؤ یہ چڑھتا ہوا سورج تمہیں پکار رہا ہے کہ اس برس کا آغاز ہوچکا ہے کہ جس میں اہل کراچی اپنا پورا حق لیں گے ان شاءاللہ

یہ سرد موسم بھی ان لہو گرماتے طوفانی نعروں کو نہیں روک سکتا کہہ دو

نکلو

دورڑو

طاقت بنو

بہت توڑ چکے

اب تعمیر کرو

میرے کراچی کو

تعبیر بنو

میرے کراچی کے خوابوں کی

کہہ دو حبیب جالب کی زبان سے

کہ

دیپ جس کا اونچے محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو

ہم نہیں جانتے ، ہم نہیں مانتے

اٹھو یہ سرد موسم میں گرم جذبات کی پکار سنو

دوڑو لبیک کہو حق کے داعی ہو تو آؤ آ کر اپنے حقوق کو چھین لو باطل پرست ٹولے کو اپنی طاقت دکھا دو بتا دو اللہ اکبر کی صداؤں میں کہ تم اہل کراچی کے اس عوامی سمندر پر بند نہیں باندھ سکتے۔