گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ خبر بڑی تیزی کے ساتھ پھیلی یا پھیلائی گئی کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے 24 شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد پر پابندی لگادی، یعنی ان شہروں سے تعلق رکھنے والے افراد اب وزٹ ویزے پر دبئی نہیں جاسکیں گے، یہ خبر جنگل میں آگ کی مانند پھیل گئی، کیونکہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کی دوستی ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی ہے، لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی بسلسلہ روزگار یواے ای میں مقیم ہیں، ہر سال ایک خطیر رقم پاکستان کو زرمبادلہ کی صورت امارات سے موصول ہوتی ہے، بعض ذرائع تو یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ امارت میں مقیم پاکستانی جو رقم ارسال کرتے ہیں وہ اس رقم کہیں زیادہ ہے جو پاکستان آئی ایم ایف سے منتوں، ترلوں کے بعد بھی حاصل نہیں کرپاتا، ہرماہ کم و بیش ایک سو کے قریب فلائٹس دونوں ملکوں کے درمیان آپریٹ ہوتی ہیں۔
اس خبر کی صداقت میں اس وقت جان پڑگئی جب کچھ ٹریول ایجنٹس نے بھی لوگوں کو مشورہ دیا کہ آپ وزٹ ویزہ کی درخواست دینے سے گریز کریں کیونکہ درخواست کی منظوری نہ ہونے کی صورت میں آپ اپنی رقم سے محروم ہو جائیں گے، سادہ لوح افراد جن کی تحقیق کے عمل تک رسائی نہیں ہوتی وہ اس خبر کو یہ سوچ کر سچ ماننے پر مجبور ہوگئے کہ جب ٹریول ایجنٹس جن کا کام ہی پیسے کمانا ہوتا ہے وہ منع کررہے ہیں تو یقینی طور پر بات سچ ہی ہوگی، اس خبر کوسنجیدہ حلقوں میں اس وقت پذیرائی ملنا شروع ہوئی جب پاکستان اوورسیز ایمپلائنٹ پروموٹرز کے ترجمان عدنان پراچہ نے بتایا تھا کہ یو اے ای نے اس سلسلے میں باقاعدہ کوئی خط جاری نہیں کیا لیکن عملی طور پر یہ پریکٹس شروع کردی گئی ہے۔ اور تابوت میں آخری کیل پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والی ممبر قومی اسمبلی جناب حنا پرویز بٹ صاحبہ کا وہ ٹویٹ ثابت ہوا جس میں انہوں نے وزیر خارجہ صاحب سے اس معاملے میں دخل دینے کی درخواست کی اور اس پر برطانوی نشریاتی ادارے کے ایک مضمون نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا، ہمارے خود ساختہ یو ٹیوبر کی چاندی ہوگئی، اور انہوں نے بغیر تحقیق کے اپنے اندر کی غلاظت اگلنا شروع کردی۔ یہی وہ وقت تھا جب ہماری وزارت خارجہ کو ہوش آیا اور انہوں نے اس خبر ان الفاظ کے ساتھ تردید کی ” ہم اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ یو اے ای کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو ویزا جاری کرنے پر ایسی کوئی پابندی نہیں” یوں پاکستان اور متحدہ عرب امارت کے تعلقات خراب کرنے کی خود ساختہ شازش ناکام ہوگئی ۔
فیک نیوز اب رواج بنتی جارہی ہیں، گزشتہ دنوں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اسکرول کرتے ہوئے میری انگلیاں یہ خبر پڑھتے ہوئے رک گئیں ” بیرون ملک جانے والے مسافر یہ ویڈیو ضرور دیکھیں، آنے والے دنوں میں بندہ ناچیز کو چونکہ خود سفر درپیش تھا، اس لیے چارو ناچار مملک ویڈیو دیکھی، مگر مکمل ویڈیو میں معروف ٹی وی اینکر شفا یوسف زئی سے صرف کام کی بات معلوم ہوئی کہ ائرپورٹ پر سیکورٹی کی ایک دیوار موجود ہے، فیٹف کی وجہ سے بہت سخت چیکنگ ہورہی ہے اس لیے ائرپورٹ جلدی پہنچ جائیں، محترمہ چونکہ ایک ذمہ دار اینکر ہیں اس لیے ان کی بات پر یقین کرتے ہوئے راقم 2 کی بجائے 4 گھنٹے پہلے ائرپورٹ پہنچ گیا، مگر وہاں پر ہر چیز نارمل تھی۔
حالات و اقعات ہم سے اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں آج کے اس دور میں کسی خبر پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق ضرور کرلیں اور اگر تحقیق نہیں کرسکتے تو یقین کرنے کی بجائے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے خود کو شانت رکھیں۔
پاکستان ہی نہیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں صوت حال اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے، ماضی قریب میں بھارتی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ گلوکارہ میشا شفیع کو اداکار و گلوکار علی ظفر پر ہراسانی کا جھوٹا الزام عائد کرنے پر تین برس قید کی سزا سنادی گئی، ہندوستان میں شائد ہی صحافت سے منسلک ادارہ ہو جس نے یہ خبر شائع نہ کی ہو، لیکن ہمارے ہاں اس خبر کا وجود ہی نہیں تھا، عوامی حلقے اس بات پر انگشت بدنداں تھے کہ یہ کیسے ہوگیا کہ پاکستان کی عدالتی کارروائی سے پاکستانی میڈیا مکمل طور پر بے خبر ہو اور بھارتی میڈیا پر اس خبر کا طوطی بول رہا ہو۔ پھر جب ہمارے ہاں تحقیق کی گئیں توجوحیران کن حقائق سامنے آئے وہ کچھ یوں تھے کہ امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں پاکستانی صحافی سعید شاہ نےامکان ظاہر کیا کہ اگر میشا شفیع پر جھوٹا دعویٰ کرنے کا الزام ثابت ہوگیا تو انہیں تین سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس خبر کو برطانوی اخبار ڈیلی میل نے یوں کہہ کر حقیقت کے قریب تر کردیا کہ میشا شفیع کو جیل کی سزا کا خطرہ ہے۔ ڈیلی میل کی خبر سے معاملہ مشکوک ہوا اورشائد کچھ نے سمجھا کہ سزا ہوگئی ہے اور کچھ نے سمجھا صرف امکان ہے۔ لیکن جب یہ خبر سات سمندر پار ہندوستان پہنچی تو گوروں کے امکانات کو حقیقت بناکر ٹائمز آف انڈیا نے لکھا کہ میشا شفیع کو علی ظفر پر ہراسانی کا جھوٹا الزام عائد کرنے کی وجہ سے تین سال قید کی سزا سنادی گئی ہے اور پھر یوں ہوا کہ قریب، قریب تمام بھارتی میڈیا نے اس خبر کو کاپی پیسٹ کردیا۔ ہندوستانی میڈیا کی وجہ سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر اس بارے میں تبصرےہونے لگے۔ میشا شفیع اور علی ظفر کا نام ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہو. یہی اس خبر کی حقیقت کا آشکار ہونے کا وقت تھا میشا شفیع کے وکیل اسد جمال نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں بتا یا کہ ٹرائل کورٹ نے میشا شفیع کو کوئی سزا نہیں سنائی، انہوں نے فیک نیوز پر افسوس کا اظہار کیا۔
آخر میں ذکر برطانیہ میں تعلیم کے لیے گئے لاہور سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نوجوان علی رضا کا جس کی ا یک گھنٹے سے زائد ویڈیو پر اپنے پرائے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لعنت و ملامت میں مصروف ہیں کہ اس نے ایک 13 سالہ لڑکی کا ریپ کرنے کی کوشش کی اور پھر پکڑا گیا، جیسے ہی ویڈیوآئی سوشل میڈیا صارفین کو جیسے موضوع مل گیا اور بغٖیر تحقیق کے لعن طعن شروع ہوگئی، بعدازاں علی کا دعویٰ سامنے آیا کہ یہ ٹریپ ویڈیو ہے، بہرحال آنے والے وقت میں حقیقت سامنے آجائے گی، لیکن تمام سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے کہ برائے کرم تبصرے کرنے سے گریز کریں اور رک نہیں سکتے تو کم ازکم اس وقت تک رک جائیں جب تک پولیس تحقیقات سامنے نہیں آجاتیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے۔
ضرورت اس امر کی ہے معاشرے کا ہر طبقہ فیک نیوز کے خلاف مزاحمت کرے، ہر سطح پر فیک نیوز کی حوصلہ شکنی کی جائے، حکومتی سطح پر ایسے کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے کہیں ایسا نہ ہوکہ بہت دیر ہوجائے۔