ہے ذو ق تکلّف میں تکلیف سراسر
آرام میں ہے وہ جو تکلّف نہیں کرتا
اردو کے مشہور شاعر ذوق نے اپنے اس شعر میں ایک انسانی رویّے “تکلّف ” کا ذکر کیا ہے ۔اس کا آسان مطلب انسان کا بناؤٹی پن ہے۔ انسان اپنے آپ کو کسی کے سامنے ایسا بنا کر پیش کرے کہ جو وہ حقیقت میں نہ ہو۔ایسا کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان کو شیطان اس دھوکے میں ڈال دیتاہے کہ اگر تونے اپنے بارے میں وہی کچھ سامنے والے کے سامنے پیش کیا کہ جو تو حقیقت میں ہے اس سے تیری عزت سامنے والے کی نظر میں کم ہوجائے گی یہی اکساہٹ محرک بنتی ہے کہ انسان دوسروں کو اپنے بارے میں وہ کچھ بتاتا ہے کہ جس کا اس کے ساتھ حقیقت میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ محض دوسروں کے مقابلے میں اپنا قد اونچا کرنا چاہتاہے جس کے نتیجے میں دوسروں پر اس کا جھوٹا رعب جمتا ہے اوراس کو وقتی لذّت یا تسکین حاصل ہوتی ہے یہ ایک ایسی نفسانی خواہش ہے جو کہ معاشرے کے اندر بگاڑ کی ایک بڑی وجہ بن کر سامنے آئی ہے۔
آج اگر معاشر ے کے مختلف دائروں میں دیکھیں تو ایسا لگتاہے کہ جیسے انسان پر تکّلف کا بھوت سر پر سوار ہے جس کی وجہ سے وہ ہر جگہ ذلت کی تکلیف برداشت کررہا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو جو کچھ بناکے پیش کیا ہوتاہے اس کا بھانڈا کبھی نہ کبھی پھوٹ رہاہے اور اس کی حقیقت لوگوں کے سامنے آرہی ہے جس کی وجہ سے جو ریت کا محل اس کی شخصیت کا ذہنوں اور دلوں میں لوگوں کے بنا ہوتاہے وہ زمین بوس ہوتا ہیں ۔اس رویّہ میں انسان کے دونوںصنف گرفتار ہیں اس سے بحث نہیں کہ کون زیادہ گرفتار ہے اور کو ن کم گرفتار ہے ۔ برسبیل تذکرہ ،ہم یہاں آج کل کی شادیوں کاذکر بھی کئے دیتے ہیں اور یقینا آپ کے بھی مشاہدے میں آتا ہوگا سڑک پر ایک جلوس ہے لوگ ہزاروں کی تعداد میں اس جلوس میں موجود ہیں ۔ جب قریب پہنچتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ تو بارات ہے ۔سب سے آگے ایک ٹرک جس پر بڑے بڑے اسپیکر نصب ہیں اس پر واہیات قسم کے گانے بج رہے ہوتے ہیں کچھ منچلے نوجوان آتش بازی کررہے ہوتے ہیں کچھ ناچ رہے ہوتے ہیں ٹریفک جام ہورہا ہوتاہے کچھ لوگ اندر اندر کڑھ رہے ہوتے ہیں اور زیادہ تر تماشہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اورلطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں وی گو گاڑیوں کی ایک قطار ہوتی ہے بظاہر تو ایسا لگتاہے کہ یہ ساری شاندار گاڑیاں دولہا صاحب کی ہیں اور ان کے خاندان والے بھی اتنے صاحب ثروت ہیں کہ وہ ہر سال نئی ماڈل کی گاڑیاں خریدتے ہیں ۔خیر یہ کا م تو رینٹ اے کار والوں نے آسان کردیا ہے کہ کوئی بھی آدمی یہاں سے کرائے پر نئے ماڈل کی وی گو گاڑیا ں کرائے پر لے سکتاہے ۔لیکن جو جلوس باراتیوں کی شکل میں سڑک پر موجود ہے وہ تو مفت میں میّسر آگیا ہے اس لیے کہ جب گھر سے بارات چلی تھی تو باراتیوں کی تعداد سوپچاس افراد پر مشتمل تھی مگر یہاں مجروح سلطان پوری کی مطابق
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یہ ایک عام سی بات ہے جو دیکھنے میں سب کے آرہی ہے کس طرح دونوں فریق اپنے آپ کو ایک دوسرے سے بھاری ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں ۔یہ تو تصویر کاایک رخ ہے لیکن جب بھابھی گھر آجاتیں ہیں تو پہلے دن سے دولہے صاحب کے ایک ایک کرکے جھوٹی شان کا بھانڈا پھوٹنا شروع ہوتاہے پھر دوسری طرف کے بھی حقائق کھلتے ہی ہوں گے پھر جیسے کو تیسا کے مصداق ۔دنیا کا یہ حسن ہے کہ اس میں انسانوں کے درمیان ہر لحاظ سے تفاوت موجود ہے کہیں حسن و جمال کا کہیں دولت ثروت کا کہیں طاقت کا اس کے علاوہ بھی انسانوں کے درمیان کئی حیثیتوں سے تفاوت موجود ہے انسان جب اپنے سے بر تر حیثیت والے کی طرف نظر کرتاہے تو اس کے اندر احساس کمتری پیدا ہوتاہے یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ حسرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتاہے یہ احساس کمتر ی جب انسان کے اندر گہرا ہونے لگے تو انسان کو اپنے سے نیچے کی طرف دیکھنا چاہئیے کیونکہ کروڑوں لوگوں کو وہ نعمتیں حاصل نہیں ہیں جو اس کو حاصل ہیں تب جاکے اس کے اند ر کا یہ احساس کمتری ختم ہوگا۔
کچھ برائی ایسی ہوتی ہے جو کہ کئی برائیوں کا مجموعہ ہوتی ہے تکلّف بھی ایسی ہی برائی ہے اس ایک برائی کے اندر جھوٹ ، دھوکہ دہی وغیرہ شامل ہیں ۔اس بیماری سے اگر بچنا چاہے انسان تو اس کو تکّلف سے بچنا ہوگا یعنی اس کو بناوٹی پن تر ک کرکے اس کی جگہ حقیقت پسند بننا ہوگا ۔یہ عادت انسان کی حقیقی قدر دوسروں کے دل میں پیدا کرے گی یہی بات انسان کے اپنے لیے بھی اوروہ جس معاشرے میں رہتا ہے اس کے لیے بھی فائدے مند ہوگی کہ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں غلط رائے قائم نہیں کریں گے ایک حقیقی انسان جب ہی سامنے آتا ہے جب وہ بناؤٹی پن سے پرہیز کرتاہے ۔اس برائی سے بچنے کا نسخہ ہے تو وہ اسلامی تعلیمات اور اس کی سب سے بہترین مثال جو ہمارے پاس ہے وہ نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہے ۔ آپ لوگوں سے ملتے تو بغیر کسی تکلّف کے حقیقی مسکراہٹ کے ساتھ ، لوگوں کے ساتھ محبت کااظہار فرماتے تو سامنے والے کو ایسا محسوس ہوتا کہ حضورﷺسب سے زیادہ اس سے ہی محبت کرتے ہیں آپ ﷺ مجالس میں بھی نمایاں جگہ پر بیٹھنا پسند نہ فرماتےبلکہ صحابہ کے ساتھ اس طرح تشریف فرما ہوتے کہ بعض اوقات باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو حضورﷺ کو پہچاننا مشکل ہوجاتا کہ مجلس میں حضور ﷺکون ہیں ۔ آپ ﷺکے سامنے ایک بار کھانا لایا گیا تو آپ ﷺنے اسماء بنت یزید کو کھانے کےلیے کہا ! انہوں نے کہا کہ بھوک نہیں اس پر حضور ﷺنے فرمایا کہ بھوک اور جھوٹ کو جمع نہ کرو (ابن ماجہ ) یعنی انہوں نے تکلّف کا اظہار کیا جس کو آپ نے منع فرمایا۔