دنیا کے ان تمام ممالک کے لئے 9 دسمبر کی تاریخ بے حد اہمیت کی حامل ہے، جہاں بدعنوانیاں عام ہیں۔ جس کے باعث ان ممالک کی ترقی، خوشحالی اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کرپشن ایسے ممالک کے اندر تعلیم، صحت، عدلیہ، جمہوریت اور عوامی خوشحالی پربہت شدت سے اثر انداز ہوتی ہے۔ ان مسائل کے سدباب کے لئے اقوام متحدہ نے 31اکتوبر 2003ء کو ایک قرارداد کے ذریعہ ہر سال 9 دسمبر کی تاریخ کو انسداد بدعنوانی کا عالمی دن منانے فیصلہ کیا تھا۔ جس کا مقصد بدعنوانی کے خلاف مہم چلا کر اس کے مضر اثرات سے قوموں کو باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خاتمے کے لئے رائے عامّہ تیار کرنے کو ضروری قرار دیا گیا تھا۔
اس سلسلے میں اس بات کے خدشہ کا بھی اظہار کیا گیا تھاکہ بدعنوانی کا خاتمہ صرف قوانین بنانے سے نہیں ہوگا ، بلکہ معاشرے کے اندر کرپشن سے ہونے والے نقصانات سے منظم اور منصوبہ بند مہم کے ذریعہ ہی ہر فرد کو اس کی ذمہ داری کا احساس کرانے اشد ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کا کنونشن برائے تدارک بدعنوانی (UNCAC) UNITED NATIONS CONVENTION AGAINST CORRUPTION ممبر ممالک کی جانب سے ایک یاداشت اور اظہار یک جہتی ہے جس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بد عنوانی کے تدارک پر کام کیا جائے گا۔ عالمی سطح پر کرپشن کے خلاف مندرجہ ذیل سلوگن Slogan تھیم دیئے گئے ہیں۔ آپ کا انکار کہ کو ئی آپ کو بدعنوانی پر مجبور کرے۔
کرپشن سب سے بڑا مرض ہے اور شفافیت اس کا بہترین علاج ہے۔جو لوگ کر پٹ،سیاستدان، چوراور منافق لوگوں کو چنتے ہیں وہ اس بدعنوانی کا شکار ہیں بلکہ شامل ہوتے ہیں۔ کرپشن کے رویہ کو ایک غیر انسانی فعل قرار دیا جائے۔ عام شخص پر کرپشن کے سب سے زیادہ اثرات ہوتے ہیں۔ کرپشن ترقی کے عمل کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ بلاشبہ کرپشن ایک ایسا گھن ہے، جو بڑھتے بڑھتے نہ صرف سماج اور قوم کو بلکہ پورے ملک کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتا ہے۔ کوئی بھی معاشرہ تب تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس معاشرے میں بد عنوانی کے عناصر موجود ہوں، جہاں میرٹ کو پاما ل کیا جائے، جہاں شفافیت کا وجود نہ ہو، جہاں اقربا پر وری ہو، جہاں لوٹ کھسوٹ ہو، جہاں عوام کے ٹیکس کا پیسہ محفوظ نہ ہو۔ کرپشن ایک ایسا مرض ہے جوکہ کسی معاشرہ کی جڑوں کو کھوکلا کردیتا ہے اور اس کی موجودگی میں ترقی کی راہ اور عام افراد کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔
کرپشن کی ایک بڑی وجہ قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے ایک سخت اور کڑا احتساب ہی کرپشن کے خاتمے کا ضامن ہے۔کرپشن کے خاتمے میں عدلیہ کا کردار ایک اہم حیثیت کا حامل ہے کیونکہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا عدلیہ کے فرائض میں شامل ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو کرپشن کے خاتمے کے لئے آگاہی فراہم کرنی ہوگی اور رول ماڈل بن کرسامنے آنا ہوگا۔کرپشن کے خاتمے کے لئے کرپٹ عناصر کو سخت سزائیں دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھئے، جن ممالک میں بھی معاشی کرپشن کی زیادتی ہوئی، اس نے پورے ملک کو کھوکھلا ، کمزور اور بے وقعت کردیا ہے۔ اس صورت حال کو جاننے کے لئے ، بس ہر سال مختلف اداروں کے ذریعہ جاری ہونے والے سروے ہی پر ایک نظر ڈال لیں، تو اندازہ ہو جائے گا کہ کرپشن سے شائد ہی کوئی ملک بچا ہے۔ ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ملک کی موجودہ صورت حال اس امر کو تقویت بخشتا ہے کہ سیاست اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
انگریزی کے مشہور تاریخ داں لارڈ ایکٹن (1834ء-1902ء ) نے موجودہ حالات کی پشین گوئی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’اقتدار، کرپٹ کرتاہے اور بے کراں اقتدار لا محدود طور پر بد عنوان کرتا ہے‘‘۔ عصری تناظر میں اس کی معنویت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ جہاں جہاں اقتدار حاصل کرنے کے لئے جوڑ توڑ کو راہ دی جاتی ہے، وہاں وہاں کرپشن میں اضافہ ہوتا جاتاہے۔ ایسے بدترین حالات میں 9 دسمبر کی یہ تاریخ نہ صرف ملک کی سماجی معیشت کے لئے بلکہ ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لئے کافی اہم ہے کہ اگر حکومت، ملک کے اندر بہت تیزی سے پھیل چکی بدعنوانیوں کے انسداد پر مثبت رویہ اختیار کرتی ہے، تو بہت ممکن ہے کہ کرپشن کے سلسلے میں ہر سال جاری ہونے والی مختلف فہرستوں میں ہمارے ملک کا نام ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے اور ہم اس بات پر فخرکریں کہ ہمارا ملک بدعنوانیوں سے پاک ہے۔ کاش ایسا ممکن ہو سکے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی جیسے کاروبار، سیاست، میڈیا اور سول سوسائٹی میں عالمی سطح پر احتساب اور جوابدہی کے تصور کی ضرورت ہے۔
بدعنوانی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی دنیا کے 180 ممالک میں بدعنوانی کے تاثر کے بارے میں جاری کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی درجہ بندی تین پوائنٹس کم ہونے کے بعد 124 سے گِر کر 140 تک پہنچ گئی ہے۔ اورگذشتہ 11 برسوں میں یہ پاکستان کی سب سےبُری درجہ بندی ہے۔ بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے وصال کے فوری بعد ہی دولت کے پُجاریوں کا گروہ اپنا مطلب نکالنے میں لگ گیا تھا تھا۔ تاہم گذشتہ 75 سالوں میں ’’اینٹی کرپشن کے‘‘ ایکٹ منظور ہوئے، شعبہ جات قائم کئے گئے، مختلف ادوار میںکرپشن کے خلاف اقدامات کا آغاز ہوتا رہا۔ مگر بے سود !1999ء میںقومی احتساب بیورو ایک صدارتی آرڈیننس کے نتیجے میں قائم ہوا۔ اصل میں اس کا قیام ہی سیاسی حریفوں پر شکنجہ کسنے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت ہو یا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ان کا مشترکہ موٹو اپنے مخالفین کو جائز و ناجائز ہتھکنڈوں کے ذریعے جیلوں میں دھکیلناہوتا ہے۔
درجن بھر سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت کی تشکیل کے بعد عوام کو ریلیف تو کیا ملتا الٹا انہیں مہنگائی کی چکی میں اس قدر پیسنا شروع کر دیا گیا کہ ان کی چیخیں نکل گئیں۔ اب صورتِحال یہ ہے کہ چند ماہ کے عرصہ ہی میں پٹرولیم مصنوعات، بجلی، کوکنگ آئل، گھی، چاول، دالیں، ذرائع آمدورفت وغیرہ پر اٹھنے والے اخراجات کئی سو گنا بڑھ گئے ہیں۔ ڈالر کی اونچی اڑان جاری ہے اور قرضوں کا حجم یک دم کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ اس کے تمام منفی اثرات عام آدمی ہی بھگت رہا ہے۔ جبکہ حکومت نے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کا ابھی تک روڈ میپ نہیں دیا۔ یعنی ہر آنے والے حکمرانوں نے معاشی دجال کی غلامی کا طوق گردن میں پہننا طے کر رکھاہے۔ ملک میں سیاست دان، سرمایہ کار اور جاگیردار مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ اس کی موجودگی میں پاکستان کو بھارت جیسے دشمن کی بھی ضرورت نہیں۔ پاکستان اپنے ذمہ واجب الادا قرضے واپس نہ کرنے کی وجہ سے ایک ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنے کی تدبیر نہ کی گئی تو خدانخواستہ ملکی سلامتی خطرے میں پڑنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن