سوشل میڈیا ،ٹک ٹاک ،اسنیک وڈیو سمیت بہت سی ایپس کے ذریعے ڈالرز کمانے اور ریٹنگ کے چکر میں ناچ گانے پر مبنی وڈیوز وائرل کرنے کی وباء نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا، اور یہ دھندہ تسلسل کے ساتھ وسعت پا رہا ہے، میری نظر سے جب بھی سوشل میڈیا پر لڑکیوں کی ڈانس کرتی ویڈیوز گزرتی ہیں تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہوں کہ کیا یہ مشرقی بیٹیاں ہیں۔؟ اور کیا عورت اتنی بے حیا بھی ہوسکتی ہے؟ کہ وہ اخلاقی و اسلامی اقدار کو ہی پس پشت ڈال سکتی ہے۔
عورت ناچ کر خود کوبے حیا کہلوانے کی بجائے وہ پرانی اور دقیانوسی سوچ والی ہی کہلائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فیشن اور آزادی کے نام پر بے حیائی پھیلانے اور امت مسلمہ کو بے راہ روی کی طرف مائل کرنے کے لیے شیطانی بیرونی قوتوں نے عرصہ دراز سے منصوبہ بندی کر رکھی ہے جس پر عملدرآمد کے لیے جدید میڈیا اور سائنسی ٹیکنالوجی سے مدد حاصل کی گئی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جب یہ اسلام دشمن قوتیں مسلم اُمہ کے خلاف کسی بھی طرح اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے تو انہوں نے ملت اسلامیہ کی نوجوان نسل کو اپنے مقاصد کے حصول لیے’’ ہپناٹائز ‘‘ کیا اور ساتھ ہی جدید نالج، گلوبل ویلج کی افادیت کے سہانے سپنے دکھا کر ماڈرن دنیا کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے لبادے میں بے راہ روی، بے حیائی اور گمراہی کے کنویں میں دھکیل دیا۔ جس کے نتیجے میں نوجوان نسل نے نہ صرف اسلام سے دوری اختیار کر لی بلکہ اپنی تہذیب و روایات سے بھی کوسوں دور ہو گئے جس کے نتیجے میں جہاں بے پناہ تباہی و نقصانات کی طویل ترین فہرست موجود ہے ان میں سے دور حاضر کا ایک اہم المیہ یہ بھی ہے کہ قوم کی بیٹیاں حیاء کی چادر اوڑھنے اور چار دیواری کی زینت بننے کے بجائے مفاد پرست بد نسلوں، مادر پدر آزاد اوباش نوجوانوں کے بہکاوے میں آکر حقوق نسواں کے حصول اور آزادی کی آڑ میں اپنے وقتی جذبات، جوش و جوانی اور کم عقلی کے سبب اپنی عصمت کو تار تار کر کے ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہو رہی ہیں۔
یوں اپنی ناقص سوچ کی بدولت یہی عورت جب استعمال کرکے پھینک دی جاتی ہے تووہ ساری زندگی کفِ افسوس ملتے اور روتے دھوتے گزارتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اوّل تو انہیں کو ئی قبول نہیں کرتا، اگر یہ بیٹیاں کسی کے گلشن کا پھول بننے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو ان کی تمام عمر صفائیاں پیش کرتے گذرتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آزادی کے نام پر والدین کی طرف سے لڑکیوں کو کھلی چھوٹ دے دینا سراسر تباہی ہے۔ اولاد کی تعلیم و تربیت والدین پر فرض ہے، سمجھداری اسی میں ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو ناچنے والیوں اور عزت دار بیٹیوں کا فرق سمجھائیں۔ جو لڑکیاں مشرقی روایات اپناتی ہیں اور اپنے آباواجداد کی پاسداری کا بھرم رکھتی ہیں وہ کبھی بھی زندگی میں ناکام نہیں ہوسکتیں۔ مشرقی لڑکیوں کو یہ سب زیب نہیں دیتا کہ وہ اس طرح جگہ جگہ ناچتی پھریِں۔ اپنی تہذیب و تمدن اور روایات کی پاسداری کرنے والی، والدین کی عزت کی حفاظت کرنے والی بیٹیاں اپنے گھر والوں کے دلوں پر ہی نہیں اپنی پوری فیملی پر بھی حکومت کرتی ہیں ۔
حیاء اور وفا عورت کا وہ زیور ہے جسے پہننے کے بعد دنیا کی ہر آسائش اور کامیابی اس کے قدم چومنے کو ترستی ہے۔ کبھی سوچا ہم کس طرف جارہے ہیں؟ پھر کیا فرق رہ جاتا ہے ایک ناچنے والی اور عزت دار گھرانے کی بیٹیوں میں؟ والدین بھی فخر سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ میری بیٹی کی ڈانس کی ویڈیو دیکھی تھی، میلینس Millionsمیں لائک چلے گئے ہیں
راتوں رات کروڑوں روپے ملے ہیں۔ اینکرز حضرات اپنے پروگراموں کے دوران دس مردوں کے بیچ میں کھڑا ہوکر کہتا ہے کہ’’ ذرا ٹھمکا لگاکر تو دکھائیے گا‘‘۔ کہاں گئے عزت دار والدین؟
ایسی بے حیا لڑکیوں کی وجہ سے ہی مردوں کی اکثریت ہر لڑکی کو اسی بے حیائی کے ترازو میں تولتے ہیں اور گندی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کہاں گئیں وہ بیٹیاں جو ایک ہی مرد کے نام سے منسوب ہوجائیں تو تمام عمر اسی مرد کا انتظار کرتی تھیں؟
مقام ِ افسوس ہے کہ آج کے دور کی بے حیا، لڑکیاں ایک مرد کو چھوڑ کر ہردوسرے مرد کے پاس تتلیوں کی طرح منڈلاتی نظر آتی ہیں۔ اور آزادی کے نام پر وہ کچھ کرتی نظر آتی ہیں کہ مغرب میں بھی پسند نہیں کیا جاتا۔
لڑکیوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو مرد نکاح سے پہلے عورت کو بے لباس دیکھ لیتا ہے وہ محبت میں نکاح بھی کرلے تب بھی عورت کی پاکیزگی کی قسم نہیں اٹھا سکتا۔ بات مرد کی غیرت اور عزت کی آجائے تو ایسی عورت کو چھوڑنے میں ذرا دیر نہیں کرتا۔ مرد کے دل سے اتری ہوئی عورت کسی دوسرے مرد کے بستر پر تو جگہ بناسکتی ہے مگر دل پر راج نہیں کرسکتی۔
مرد کسی عزت دار بیوہ یا طلاق یافتہ سے بھی نکاح کرلینے کو ترجیح دے گا مگر بے حیا عورت کے ساتھ محض ’’وقت گذاری تک محدود رہتا ہے ‘‘کوئی بھی مرد ایسی عورت کو اپنے گھر کی زینت نہیں بناسکتا۔
عزت دار بیٹیاں اپنی عصمتوں کی خود حفاظت کر تی ہیں اور میں سمجھتی ہوں۔ سوشل میڈیا نے برائی کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ وہ نئی نسل کے لیے ایک فیشن بن گئی ہے۔ برائی کو دیکھ کر بھی برائی محسوس نہیں ہوتی بس عام سی بات ہوگئی ہے۔ آج کے دور کی برائی ایک دہائی کے بعد معاشرے کی مقبول ترین رسم کہلائے گی جو دوسری دہائی تک تہذیب وثقافت کا نمایاں عنصر ہوگا جب کہ تیسری دہائی میں وہ بری رسم مذہبی معاشرتی فریضہ بن جائے گی اور اس پر عمل پیرا نہ ہونے والا گنہگار گردانا جائے گا۔
میری دعا ہے کہ مالک کونین، پروردگار عالم حسنین کریمین کے صدقے تمام بیٹیوں کی عفت و پاکدامنی کی حفاظت فرمائے اور انھیں عقل دے تاکہ وہ سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے ماحول سے بچ سکیں او راُسکے ہر فتنے اور شر سے محفوظ رکھے آمین۔ یارب العالمین الٰہی آمین ثم آمین