اخلاقی اقدار اور ہمارے بچے

بچےگلشن حیات کا بہترین تحفہ اور نعمت خداوندی ہیں۔ نعمت بھی ایسی کہ جس سے روح حیات میں تابانی و سرشاری کی سی کیفیت پیدا ہوجائے۔ گلشن حیات کے ان پھولوں سے زندگی میں جینے کی رمق پیداہوجاتی ہے۔ ان پھولوں کو جتنا اچھا باغبان میسر آئے گا ان کی شگفتگی تازگی نکھار اور رونق میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ ایک تحفہ اگر بہت بڑی ہستی کی جانب سے ملا ہو تو اس کی اہمیت اور قدر میں اضافہ ہوجاتاہے۔ یہ خالق حقیقی کی جانب سے دیا جانےوالا تحفہ ہے اس لئے اس کی قدر کرنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔

نعمت اولاد کے بہت سے حقوق بھی والدین پر عائد ہوتےہیں۔ جن میں سے بنیادی حقوق یہ کہ اس اولاد کو پیدا کرنے کے لئے ایک اچھی ماں کا انتخاب کیاجائے۔ اولاد کا اچھا نام رکھاجائے۔ اس کو اسکے خالق کی پہچان کروائی جائے۔ اولاد کی نشوونما اور ترقی کر مدارج طے کرنے میں اس اولاد کو حسب استطاعت تمام ذرائع مہیاکئے جائیں۔ اس کی بنیادی ضروریات مکان غذا کپڑے اور تعلیم کا خیال رکھا جائے۔ اس کی پرورش میں بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرناتاکہ بچہ بھی بہترین خلائق سے آراستہ ہو۔ سات سال کی عمر تک اسے بنیادی اسلامی تعلیم نماز اخلاق حسنہ سے روشناس کروانا۔

آج ترقی کے اس دور میں جب کہ دنیا ایک عالمی گاؤں کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ افریقہ کے جنگلات میں لگنے والی آگ کی خبر ہو یا پاکستان میں آنے والا حالیہ سیلاب حکومت کی جانب سےچین کے صوبے میں ہونے والے مسلم کش حملے ہوں یا سعودی عرب میں منعقد ہونےوالاکوئی تہوار دنیا کے ایک سرے میں ہونے والے کسی بھی واقعے کی خبر پلک چھپکتے میں دنیا کے آخری سرے پر بیٹھے انسان تک پہنچ جاتی ہے اور وہ اسےانٹرنیٹ کے ذریعے اپنی آنکھوں سےمشاہدہ بھی کرلیتاہے۔ میلوں کا سفر اب منٹوں میں طے ہوجاتاہے۔ آپ جو کھانا چاہیں باآسانی گھر بیٹھے آرڈر کرسکتےہیں۔ آپ گھر بیٹھے آن لائن دنیاکے کسی ملک کے استاد سے اپنی تعلیمی سلسلے کو جاری کرسکتے ہیں۔ یہ تمام ترقیاتی کام اور ڈیجیٹل دنیا کی رنگینیاں ایسی دل فریب ہیں کہ آدمی ناچاہتےہوئے بھی ان تمام رنگوں کے سحر میں مبتلاہوجاتا ہے۔ یہ تمام آسائشیں ایک حد تک تو بہت اچھی ہیں لیکن ان کی بدولت ہم اپنی اخلاقی اقدار و روایات کو رفتہ رفتہ فراموش کرتےجاتے ہیں اور ان تمام حالات کا سب سے زیادہ شکار ہماری نئی نسل ہماری اولاد ہے۔

بلاشبہ اخلاقیات اور اقدار زندگی کے ہر پہلو میں اہم ہیں ، جب ہمیں دو چیزوں کے درمیان انتخاب کرنا ہے ، جس میں اخلاقیات کا تعین ہوتا ہے کہ کیا صحیح ہے ، اقدار اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ کیا اہم ہے۔ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنےوالی مدینہ کے بعد دوسری ریاست ہے۔ اس ملک میں اخلاقی قدروں کی اہمیت کسی عام ملک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں چہار سو اخلاقی قدروں کی پامالی ہے۔ ہم خود اس بات کو غلط سمجھتے ہوئے اس پامالی میں کس قدر ملوث ہیں اس کا جائزہ لینا ہم سب کےلئے بہت ضروری ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہماری بنیادی اقدار میں انصاف قرابت داری، حسن سلوک، ایفائے عہدسچ، ناپ تول میں توازن، عدل و احسان، شراکت داری، فساد و جھگڑوں سے اجتناب، جھوٹ سے اجتناب، معاشرتی برائیوں سے اجتناب، غصہ قتل و غارت گری سے اجتناب وغیرہ ہیں یہ چند اقدار کا تذکرہ دراصل اس لئے کیاگیا کہ ٹھیک یہی اقدار اسلام کی بھی ہیں۔ اسلام کہیں بھی انسانی اقدار اور اسلامی اقدار کو الگ نہیں کرتا۔ اسلام کہتاہے کہ کسی معاشرے میں بقا کا راز یہ ہے اُس کے عمرانی قوانین کی تہہ میں وہی اقدار (صفاتِ الٰہی) ہوں، جن کی بنیاد پر نظامِ کائنات چلتاہے۔ انسانی معاشرے جب تک ان اقدار پر قائم نہیں ہوتے، جن کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نظام کائنات چلا رہا ہے، اس وقت تک ایک مستحکم معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ قرآن دراصل اس بات کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ ہم کائنات کی اقدار کو سمجھیں اور ان کی بنیاد پر اپنا معاشرہ قائم کریں۔ فرد معاشرے کی اکائی ہے۔ فرد سے خاندان خاندان سے معاشرے وجود میں آتےہیں۔ ایک فرد کی اچھی تربیت خاندان اور معاشروں کے سدھار کاباعث بن سکتی ہے۔

اولاد کی تربیت میں شروع کے سات سال بہت اہم ہیں۔ لیکن سات سال کے بعد تاعمر والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچوں کو اچھے برے، حلال حرام، محرم نامحرم، بڑے چھوٹے، غریب امیر، سے حسن سلوک کی تربیت و تعلیم دیتے رہیں حق گوئی، عاجزی غصہ پر قابو بڑوں چھوٹوں کا ادب، پڑوسیوں کاخیال یہ ایسی اقدار ہیں کہ جن کو آپ کا بچہ ہمیشہ آپ کے کردار سے اخذ کرتاہے۔ آپ کا اچھا یا برا کردار انجانے میں آپ کے بچے کی کردار سازی بھی کررہاہوتاہے۔ اپنے رشتہ داروں سے احسن سلوک کیجئے کبھی غلطی سے بھی بچے کے سامنے انکے ددھیال، ننھیالیا کسی گھر والوں کی برائی نا کیجئے۔ کیونکہ اس طرح جب بچہ نفرت سیکھ جائے گا تو وہ اس نفرت کا استعمال پھر ہر ایک کیلئے کرے گا۔ یہی بچہ کا کردار آپ کے مرنے کے بعد آپ کا صدقہ جاریہ بھی بن سکتاہے اور خدانخواستہ عذاب جاری بھی بن سکتاہے۔

مذہبِ اسلام میں اولاد کی پرورش میں اہم بات یہ کہ والدین بچے کی صرف دنیا ہی نہیں، بلکہ آخرت سنوارنے کی فکر بھی پہلے دن سے کرتے رہیں۔ آپ نے بہت اچھے اسکول میں تعلیم دی آپ نے اس کو بہترین کھلایا لیکن اسے اپنے ساتھ طچوں سے تمیز اور ادب لحاظ نہیں سکھایا تو آپ کا بچہ ابھی بنیادی اقدار میں بہت پیچھے ہے۔ والدین کی جانب سے اولاد کے اِن حقوق میں کوتاہی کے سبب وہی بچے ان کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین بڑھاپےمیں اولاد کی نافرمانی اور اُن کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں کا رونا روتے ہیں۔ اولاد کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی وغفلت کا نتیجہ والدین بڑھاپے میں برداشت کرتےہیں ۔ والدین اپنی اولاد کو اُن کے حقوق دیں۔ اپنے کردارکو ویسا ہی کرلیں جیسا آپ اولاد سے چاہتےہیں۔ ان شاء اللہ اولاد کی طرف سے آپ کو ان کے حقوق ضرور ملیں گے، اور یہ اولاد دنیا وآخرت میں اپنے والدین کے لئے صدقہ جاریہ بن جائے گی۔

یہ فیضانِ نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی؟