بکری کے میمنوں سے متعلق پوسٹ جو فیس بک پر گردش کر رہی تھی،معلوم نہیں،اس کی اصل کیا ہے مگر بات اتنی مدلل تھی کہ سند کے بناء بھی وزن رکھتی تھی۔ جی، توایک ہی عمرکے اور ایک جیسے دو میمنوں پر ابن سینا نے ایک تجربہ کیا،میمنوں کو الگ الگ پنجروں میں رکھا،خوراک ایک سی کھلائی گئی،سلوک ایک سا برتا گیا مگر ایک میمنے کو پنجرے کی ایک سائڈ سے بھیڑیا نظر آتا تھا۔چنانچہ دونوں کی بڑھوتری میں نمایاں فرق دیکھا گیا۔یہاں تک کہ وہ میمنا مر گیا جو بھیڑیے سے خوفزدہ تھا۔گویا ایک سی خوراک،حالات کے باوجود غیر ضروری خوف اندیشے،دباؤ اور وسوسے صحت پر منفی اثرات چھوڑتے ہیں یہاں تک کہ قبر تک پہنچا دیتے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ شکار، شکاری کی سحر انگیز نگاہوں سے متاثر ہونے کے بعد خوف سے اپنی جگہ سمٹ جاتا ہے اور ایک قدم ادھر ادھر ہونے کے قابل نہیں رہتا،خوف اس کے قدموں کو جکڑ لیتا ہے اور شکاری اپنا کام کر لیتا ہے۔ انسان کے ساتھ بھی بعینہ یہی معاملہ ہے۔ جب تک آپ خوف کے زیر اثر رہتے ہیں آگے بڑھنے کے عمل کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔خوف غیر مرئی مخلوق کا ہو یا انسانوں کا،حقیقی ہو یا غیر حقیقی،صحت کے لئے زہر قاتل ہے،ذہنی بیمار کبھی جسمانی طور پر صحت مند نہیں رہ سکتے اور فی زمانہ آلودہ ذہن(دباؤ،تفکرات،اندیشے،وہم،خوف) جسمانی صلاحیتوں کو زنگ لگائے ہوئے ہے،ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور مغلوب رہنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے۔
در حقیقت،اس خوف اور دباؤ کی کیفیت سے ہمیں نکلنا ہو گا اور اپنے بچوں کو نکالنا ہو گا۔ہمیں اس دباؤ کی کیفیت سے بچوں کو نکالنا ہو گا جو کم نمبروں کے خوف کے باعث ان پر طاری رہتا ہے اور استہزاء کا نشانہ بننے کا خوف ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی ابھرنے نہیں دیتا۔بحثیت والدین،ہمیں باؤنڈریز اپنے شعور سے بنانی ہوں گی اور معیار بھی ہمارے اپنے طے کردہ ہوں گے،بچوں کو بھیڑچال کی اس فضاء سے متاثر ہونے سے بچانا ہو گا جو بلند پروازی اور غلبے کی سوچ کو ان میں پروان دینے کی بجائے طاقت پرواز سلب کر لیتی ہے اور نوکر شاہی کے لئے تیار کرتی ہے۔
ہمیں آگے بڑھنا ہے،زندہ رہنا ہے تو مصنوعی خوف کی فضاء کو چیرتے ہوئے اپنی منزل کا تعین کرنا ہو گا۔ اللہ کا خوف جب ہم پر طاری ہو گا تو کسی اور شے کا خوف ہمیں قبر تک نہیں پہنچائے گا۔ہمیں میمنے کی موت سے سبق لینا ہو گا۔ ہمیں نبیﷺ سا یقین پیدا کرنا ہو گا اور کافر سے خوف سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔وہ کافر جس پر نبی غالب آجاتا ہے تو وہ خوف سے کانپنے لگتا ہے اور جب نبی اس کی تلوار کی زد میں ہوتا ہے تو خوف کی بجائے یقین واعتماد کا درس دیتا دکھائی دیتا ہے۔ہمیں اپنے آپ کو یہ باور کروانا ہو گا کہ اللہ کی حدود میں ہم محفوظ ہیں،کوئی بھیڑیا ہمارا بال بیلا نہیں کر سکتا۔ اس لئے ہمیں بظاہر دکھائی دینے والے بھیڑیوں،خوف،تفکرات میں گھلنے کی بجائے مثبت زاویہ نگاہ اور طرز زندگی اپنانا ہو گا۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہم بھیڑیوں کی بھوکی نگاہوں سے مہمیز کا کام لیں گے اور تفکرات میں گھرے رہنے کی بجائے زندگی کی خوبصورتیوں پر نگاہ رکھ کر آگے بڑھیں گے کیونکہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔