ائیر ہوسٹس بننا آسان نہیں، کئی بار بدتمیز قسم کے لوگوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ دوران فلائٹ ائیر ہوسٹس نہ سو سکتی ہے نہ آرام کر سکتی ہے۔ بہت ٹف ڈیوٹی ہوتی ہے۔
آفس جاب کرنا بھی آسان نہیں ہر قسم کے مردوں کو ڈیل کرنا، اچھے برے رویے برداشت کرنا، کبھی کبھی ورک پلیس پر ہونے والی سیاست کا شکار ہونا۔
جم انسٹرکٹر بننا بھی آسان نہیں ہے۔ حد سے زیادہ اپنے جسم کا خیال رکھنا، بھاری وزنی مشنری کے زریعے ورزش کرنا۔ فوجی بننا ہو یا انجینئر بن کر فیلڈ میں کام کرنا ہو، پائلٹ بننا ہو یا پھر ایکٹر بننا ہو۔ کوئی بھی کام آسان نہیں ہے گھر کا سکون چھوڑ کر محنت کر کے خواتین کوئی مقام بناتی ہیں۔ اسٹرگلنگ فیس سے گزرتی ہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ فیلڈ چھوڑ دو۔ یہاں تک کہ اکثر خواتین خود ورک پلیس پر ہونے والے مسائل کسی سے شئیر نہیں کرتیں۔ لگی رہتی ہیں کامیاب ہونے کے لیے۔ کہیں بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تو جاب بدل لیتی ہیں مگر فیلڈ نہیں چھوڑتیں۔
لیکن یہی عورت جب ایک ہاؤس وائف ہوتی ہے اور اسٹرگلنگ فیس سے گزرتی ہے تو کہتے ہیں لعنت بھیجو ایسے گھر پر طلاق لے لو۔ تم کوئی لاورث ہو جو اس آدمی کی باتیں سنو؟ جب کہ آدمی کون ہے اس کا محرم ہے، شوہر ہے۔ طلاق لینے کے بعد یہی عورت آفس میں باس کی ساری باتیں برداشت کر لیتی ہے تب کوئی نہیں کہتا کہ تم لاوارث ہو جو ایسی باتیں سنو؟ ایک بچہ پیدا کر کے عورت آسمان سر پر اٹھا لے کہ میں نے نو مہینے تکلیف سہی ہے تم کیا جانو میرا مقام۔ پھر یہی عورت جم انسٹرکٹر کے طور پر بھاری بھاری ویٹ اٹھا کر باڈی بلڈنگ چیمپئن کہلائے۔ بچہ اٹھانے کے لیے اتنا شور جب کہ یہ لوہے کے ٹکڑے اٹھا کر جسم کو مردوں جیسا بنا کر عورت پرسکون ہے۔
اداکارہ بننے کے لیے عورت ایمان، جسم، جذبات ہر چیز داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہے مگر گھر بچانے کے لیے عورت اپنے مزاج میں کوئی تبدیلی لانے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ درس یہ کل رہا ہے کہ جاب اور کرئیر کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑے دے دو مگر شادی بچانے، گھر آباد کرنے کے لیے کیوں دو کوئی قربانی؟ کوئی سمجھوتہ نہ کرنا۔ یہ ہے آج کل کے ان لوگوں کی سوچ جو خود کو لبرل کہتے ہیں۔ آخر کوئی بتائے گا کہ یہ دوہرا رویہ کیوں؟
گھر سے باہر لانا ہے عورت کو؟ یا عورت کی اصل چاہت پیسہ ہے کہ جس جگہ جس کام میں پیسہ مل رہا ہے اس کام کے لیے سب قربان؟ یا گھریلو نظام کو توڑنا چاہتے ہیں یہ لوگ؟ یا دین اسلام کے پیش کردہ خاندانی نظام سے ان کو مسئلہ ہے؟
سوچیں، غور کریں کہ آخر عورت کو باہر لانے پر اتنا فوکس کیوں ہو رہا ہے؟ آزادی اور حقوق کے نام پر خواتین کو کس طرف لگایا جا رہا ہے۔ آزادی اور حقوق کا لیبل لگا کر ایک ابلیسی طوفان برپا کیا جا رہا ہے جو اسلامی معاشرے کو تباہ کن نقصان پہنچا رہا ہے مگر افسوس کہ وہ ہی عورت جسے اسلام نے اس دنیا میں عزت دلوائی تھی، وہ اسلام جو عورتوں کا محسن ہے۔ آج کی مسلمان عورت نے اس محسن سے دامن چھوڑا کر مغرب کے ابلیسی ایجنڈے کا حصہ بننا پسند کیا۔ ہمارے ٹی وی چینلز دن رات اس ایجنڈے کو کامیاب کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہر ڈرامے کی ایک ہی کہانی ہے بیٹیوں کے والدین روتے ہوئے دیکھائے جا رہے ہیں۔ کسی بیٹی کا گھر آباد نہیں دیکھایا جاتا پھر آخر میں وہ وررکنگ ویمن بن کر والدین کا سر فخر سے بلند کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ معاشرے کے سارے مرد ظالم و جابر ہیں لیکن وہ جو چار دیواری کے اندر ہیں۔ گھر کے اندر رہ کر گھر کے مرد کو ہینڈل کرنا توہین ہے جب کہ باہر نکل کر باہر کے مردوں کو ہینڈل کرنا خوداعتمادی اور ایک آرٹ ہے اور سونے ہر سہاگہ یہ ہے کہ ہماری خواتین ان ڈراموں کو اپنا ٹیوشن سینٹر سمجھتی ہیں۔ جب بکری بھیڑیے سے دوستی کر لے تو قصور بھیڑیے کا نہیں بکری کا ہوتا ہے کہ جس نے اپنے رکھوالے اور ریوڑ سے غداری بھی کی اور اپنوں کو حقیر جان کر غیر کو دوست بنایا۔
لمحہ فکریہ ہے۔ فکر کریں اگر اب بھی ہوش نہ آیا تو آپ سمیت آپ کی آنے والی نسلیں اس طوفان میں غرق ہو جائیں گی۔