اسلامی جمہوریہ پاکستان جس پر آزادی کے بعد سے لے کر اب تک تین طبقے کے لوگوں نے حکمرانی کی جاگیر دار، سرمایہ کار اور فوجی ڈکٹیٹر۔ ان تینوں کی نفسیات ایک ہے تینوں کی نفسیات جمہوریت کی نفی پر قائم ہے۔ جاگیردار ایسے ماحول میں پیدا ہوا جہاں کوئی اسکے خلاف جائے تو اسکی بیٹی اٹھا لی جائے یا اسے اغوا کر لیا جائے اسے غریب کی عزت کوئی عزت ہی نہیں لگتی۔ وہ اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھ کر حکمرانی کرتا ہے۔
سرمایہ کار کو جب موقع ملا تو اس نے اس ملک کو انڈسٹری سمجھ کر حکمرانی کی کیونکہ اس نے ساری زندگی ایک ہی سبق سیکھا کہ دنیا کا کوئی کام پیسے کے علاوہ نہیں ہوتا اور کوئی ایسا کام نہیں جو پیسے لگانے سے نہ ہو وہ ہر ایک کو خریدنا چاہتا ہے۔ وہ ایک چپڑاسی سے لے کر ایک افسر کو خریدنا جانتا ہے۔ جب اسے اقتدار ملتا ہے تو وہ سارے ادارے پیسے سے خریدنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے پورے ملک کا سسٹم تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
فوجی ڈکٹیٹر نے جب اقتدار سنبھالا اس نے اپنی من مانی کی کیونکہ اس نے ایک ہی بات سیکھی کہ جب بھی میں کوئی حکم دوں اس کے سامنے کسی کی بھی بولنے کی ہمت نہ ہو وہ پورے ملک کو گولی کے نام پر چلانا چاہتا ہے۔
ان تین طبقوں نے پورے ملک پر بدل بدل کر حکمرانی کی تبھی تو چہرے بدلتے رہے پر نظام اور غریب کا مقدر نہ بدل سکا اگر غریب کو اپنا مقدر بدلنا ہے تو ایوان میں بیٹھے ان لوگوں سے اقتدار چھیننا ہوگا۔ ان ایوانوں میں بیٹھے لوگ ہمیشہ جاگیرداروں، سرمایہ کاروں اور وڈیروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں انہیں غریب سے کوئی سروکار نہیں۔
آئین پاکستان میں واضح طور پر ہدایات موجود ہیں کہ اس ایوان میں بطور ممبر وہ لوگ آ سکتے ہیں جو اچھے کردار کے حامل ہوں۔ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو اور اگر کوئی شخص یہ جانا جاتا ہو کے وہ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرتا ہو تو وہ اس لائق نہیں کے اس معزز ایوان میں قدم رکھ سکے۔ آئین پاکستان کے مطابق ہر ممبر کا اسلام کے فرائض پر عمل کرنا ہوگا اور جو شخص شریعت محمدی کے اصولوں پر عمل نہ کرتا ہو اسے اس ایوان پاکستان میں آنے کا حق نہیں۔ اگر کوئی شخص گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو وہ ایوان پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتا۔ ہر ممبر کیلئے صادق اور امین ہونا آئین پاکستان کے مطابق لازم ہے۔
اگر آج صرف آئین پاکستان کی صرف انہیں تین شرائط پر عمل ہو جائے اور ایک غیر جانب دار کمیشن بنا دیا جائے جو تمام ایم پی ایز ، ایم این ایز اور سینیٹرز کو ان شرائط کے مطابق پرکھے تو شاید مشکل سے صرف دس فیصد لوگ اسمبلیوں میں نظر آئیں اور باقی نوے فیصد ایسے ہی کِک آؤٹ ہو جائیں۔ جب اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں ہو جن کی اہلیت ہی نہیں یہ اکثریت جب آئین پاکستان کے مطابق اہل ہی نہیں تو ان سے احتساب کی توقع رکھنا مناسب نہیں۔ جب وہ خود شفاف طریقے سے نہیں آیا وہ اپنے نیچے اپنی مرضی کی تقرری کرے گا۔ جہاں سے عدل ملنا تھا وہاں اس کے لوگ ہوں گے تو کہاں سے انصاف آئے گا۔
مارشل لاء میں افسر شاہی ہوتی ہے مگر موجودہ دور میں نمائندہ شاہی ہے۔ حکومت بنانے کیلئے اکثریت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے حکومت کمزور ہوتی ہے۔ یہاں ہارس ٹریڈنگ، دھاندلی اور یہاں وہاں سے لوگ لے کر حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔ حکومت کا انحصار ایم این ایز اور ایم پی ایز پر ہوتا اور وہ اپنی مرضی کرتے ہیں غریب کے بچے کیلئے اب نہ کوئی ملازمت ہے نہ کوئی علاج اور نہ کوئی عدل ہے اسے ملازمت ،علاج اور عدل کیلئے انکے دروازے پر جانا پڑتا۔ اس وجہ سے نظام بدل نہیں رہا۔
جب تک اس اقتدار کی کرسیوں پر جاگیر دار ،سرمایہ کار اور وڈیرے قابض ہیں اس وقت تک اس ملک کی تقدیر اس ملک کا نظام اس ملک کے غریب کا مقدر کبھی بھی نہیں بدل سکتا۔ یہ نظام تب بدلے گا جب وہ لوگ آئیں گے جو صادق اور امین ہوں اور اچھے کردار کے مالک ہوں۔ ہمیں مل کر انقلاب لانا ہو گا اور انقلاب ایسے باتوں یا نعروں سے نہیں آتے انقلاب کیلئے خون اور قربانی دینی پڑتی ہے۔