زندہ قومیں اپنے محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں.
نومبر آئے اور مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں ۔ علامہ کے کلام نے برصغیر کے مسلمانوں کے سوئے ہوئے جذبہ ایمانی کو بیدار کیا اور انہیں یاد دلایا کہ وہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی حیثیت سے اس بات کے مکلف ہیں کہ اسلام کو صرف اپنی ذات پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر نافذ و جاری کریں۔
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
1894ء سے 1904ء تک کے شاعر اقبال کی شاعری گل و بلبل کی داستانوں اور ہجر و وصال کے گرد گردش کرتی تھی۔ جب علامہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر لوٹے تو مغرب کی ظاہری چمک کے نیچے چھپے اصل سے خوب واقف تھے ۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
جرمنی و انگلستان کے فلسفوں کو کھنگالنے کے بعد علامہ کے علم فلسفہ کو تسکین حاصل ہوئی تو قرآن کے ذریعے سے۔ ممتاز مذہبی اسکالر اور صحافی سید نذیر نیازی نے جب علامہ سے ان کے فلسفہ خودی کی بنیاد پوچھی تو علامہ نے قرآن کھولا اور
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں خود اپنا نفس بھلا دیا ۔ یہی لوگ فاسق ہیں ۔(الحشر:19)
فرمایا یہ ہے میرے فلسفہ خودی کی بنیاد ۔
بحوالہ “اقبال کے حضور” از سید نذیر نیازی
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میں
محمد علی جناح کو قائد اعظم بنانے والے علامہ اقبال ہی تھے۔ قائد اعظم تو ہندوستان کی سیاست اور عوام سے مایوس ہو کر لندن چلے گئے تھے یہ علامہ ہی تھے جو انھیں واپس لائے اور مسلم مملکت کی جدو جہد کے لیے تیار کیا۔ قائد اعظم فرماتے ہیں میں نے روحانی فیض علامہ سے پایا ۔ علامہ کی وفات پر قائد اعظم نے فرمایا:
“To me he was a personal friend, philosopher, guide and as such main source of my spiritual support.” (Kolkata,21 April 1938)
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے بہت ہی خوبصورت الفاظ میں علامہ کو خراج تحسین پیش کیا ۔ فرماتے ہیں “آج کے دور میں ،میں علامہ محمد اقبال کی شخصیت کو اعجازِ قرآن کا سب سے بڑا مظہر سمجھتا ہوں ۔” مغرب کی چکا چوند علامہ کے لیے وہ بھٹی ثابت ہوئی جس نے انھیں کندن بنا دیا۔ بزبان اقبال
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
قرآن کریم کی محض تلاوت سے شغف نہیں تھا بلکہ قرآن کے معنی و مطالب کو خوب سمجھتے تھے ۔ 1917ء کے Balfour Declaration پر علامہ نے فوری ردعمل دیا۔
کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ینسلون۔
وَ حَرٰمٌ عَلٰى قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۤ اَنَّهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ، حَتّٰۤى اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ وَ هُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ۔۔۔۔۔۔۔الانبیاء: آیات 95, 96
مجدد اعظم ،شیخ الہند مولانا محمود حسن نے ایک بڑے جلسہ میں جہاں علماء کثیر تعداد میں موجود تھے فرمایا کہ ہمارے زوال کے دو اسباب ہیں
1: قرآن کو ترک کر دینا
2: آپس کے اختلافات
علامہ بھی ترک قرآن کو ہی مسلمانوں کے زوال کا سبب سمجھتے تھے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
مدارس کی مروجہ تعلیم سے اقبال مطمئن نہ تھے ۔ آپ کے ایک مرید( چوہدری نیاز علی خان: گورداس پور ) نے جب عرض کی کہ میں اپنی زمین اور پیسے سے دین کی کیا خدمت کروں تو علامہ نے فرمایا ایک مدرسہ بناؤ جہاں گریجویٹس کو انگلش میں قرآن مجید پڑھایا جائے اور ان کے ذہنوں کو قرآن پر مطمئن کیا جائے ۔
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نم ناک
نہ زندگی ،نہ محبت ،نہ معرفت ،نہ نگاہ
آخری عمر میں علامہ نے تمام کتابیں اٹھوا دیں تھیں آپ کا صرف ایک کام رہ گیا تھا اور وہ تھا تلاوتِ قرآن ۔ اپنے بیٹے جاوید اقبال کو وصال سے چند روز پہلے بلا کر اپنا قرآن مجید کا نسخہ تھمایا اور کہا ” میری میراث صرف یہ ہے” ۔ جاوید کہتے ہیں کہ اس قرآن کا ایک حرف بھی ایسا نہ تھا جس پر علامہ کے آنسو نہ گرے تھے۔
بحوالہ “اپنا گریبان چاک” از جاوید اقبال
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
اللہ تعالیٰ کی بہت رحمتیں ہوں علامہ محمد اقبال پر۔ آمین