میں اپنے اس دوست نما دشمن سے پیار بھی کرتا ہوں، اور نفرت بھی، یہ میری زندگی میں جب سے آیا ہے، مجھے بہت سی سہولتیں بھی حاصل ہوئی ہیں، اور بہت سی مشکلات بھی، میں اس کے بغیر رہ بھی نہیں سکتا، اور اس کی موجودگی مجھے پریشان بھی بہت کرتی ہے،اس کے بغیر میں خود کو ادھورا سمجھتا ہوں، یہ میری زندگی میں اس قدر دخیل ہوگیا ہے کہ رات کو جب نیند سے آنکھیں بند ہونے لگتی ہی، تو بھی یہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔ رات کو اکثر جب میری آنکھ کھلتی ہے، تو بھی سب سے پہلے میں اسے دیکھتا ہوں، میں اپنے روز مرہ کے کاموں میں خود کو اس کا محتاج پاتا ہوں، لوگوں سے میرے رابطہ بھی یہی کراتا ہے، مجھے کب کہاں جانا ہے، وہ بھی یہی بتاتا ہے، خوش خبری ، اور منحوس خبریں بھی سب سے پہلے یہی دیتا ہے۔ کئی بار مجھے اس پر شدید غصہ آتا ہے، دل چاہتا ہے میں اس کو دیوار پر مار دوں، لیکن پھر تھک ہار کر اسے اپنے سے دور پٹخ دیتا ہوں۔ لیکن یہ دوری بھی بہت زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ اور پھر میں اسے اٹھا لیتا ہوں۔ یہ میرے لیے دنیا تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ لیکن اب یہ میری نجی زندگی میں دوسروں کے گھسنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ یہ ایک جاسوس ہے، جو ہر دم میری جاسوسی کرتا ہے، میں کہاں جارہا ہوں، کس سے مل رہا ہوں، میں نے کس جگہ کے کتنے وزٹ کیئے ہیں، میں نے کس ہوٹل میں کتنی بار کھانا کھایا ہے، اسے سب معلوم ہے، یہ میری تصویریں بھی جمع کرتا ہے، میرے الفاظ بھی نوٹ کرتا ہے، میں نے کب کس کو گالیاں دیں ہیں اور کب کس کو برا بھلا کہا ہے، کس کو مبار ک باد دی ہے، اور کس کی شادی اور سالگرہ پر خوشی کا اظہار کیا ہے، سب اس کے پاس نوٹ ہے۔
یہ جاسوس بہت خطرناک ہے، یہ دشمن سے مل جائے، اور اس کے لگائے ہوئے جاسوسی کے سافٹ ویئر سے ساز باز کرلے تو ، میری ہر چیز تک دشمن کی رسائی ہوجائے گی۔ جب سے اعظم سواتی کے رونے اور اس کی ویڈیوز کے لیک ہونے کے بارے میں سن رہا ہوں۔مجھے اپنے اس جاسوس سے مزید ڈر لگنے لگا ہے۔ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں بلاول بھٹو ، وزیر اعظم کو مشورہ دے رہے تھے کہ شاہ محمود قریشی کی جاسوسی کے لیے وہ خفیہ ایجنسی کی ڈیوٹی لگائیں۔ بلاول بھٹو کی ماں ، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو تو یہ کہتی کہتی اس دنیا سے چلی گئی کہ ان کے پیچھے خفیہ ایجنسی لگی ہیں۔
پاکستانی تاریخ میں سیاستدانوں کے فون ٹیپ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ ماضی میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اور اداروں پر جاسوسی کے الزامات عائد کرتی آئی ہیں۔لیکن وہ پرانے زمانے تھے، اب نئے انداز نئے آلات ہیں، اب تو ایسی ویب سائٹ ہیں، جو وزیر اعظم سے لے کر ملک کی اہم شخصیات تک کی مبینہ آڈیوز یا ویڈیوز کی بولی لگا کر نیلام کر رہی ہیں۔ یہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کی ویڈیوز ہیں ۔یہ آڈیوز 100 گھنٹوں سے بھی زیادہ طویل دورانیے کے ریکارڈ شدہ اس ڈیٹا کا حصہ ہیں جس کی خریداری کے لیے بنیادی قیمت تین لاکھ 45 ہزار ڈالر مقرر کی گئی ہے۔اوپن سورس انٹیلیجنس انسائڈر کا دعویٰ ہے کہ یہ فون پر ہونے والی گفتگو نہیں بلکہ پی ایم آفس میں ریکارڈ کی گئی گفتگو ہے۔شہباز شریف اور وفاقی وزير داخلہ رانا ثنا اللہ اس معاملے کی انکوائری کرا رہے ہیں، لیکن اب ایک کے بعد ایک ویڈیوز آنا شروع ہوچکی ہیں۔ معاملہ ان ویڈیوز سے بڑھ کر ایک ملک اور قوم کا ہے، یہ ہرسیاسی جماعت ن اور ہر پاکستانی کا معاملہ ہے کیا ہم اخلاقی سطح پر اس قدر نیچے چلے گئے ہیں کہ اب گھر کی عورتوں کی ویڈیوز بھی آنا شروع ہوگئی ہیں۔
ڈارک ویب تو ساری دنیا میں بدنام ہے۔ اس کے سرے تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہے اور اس کی یہی خصوصیت اسے سیاسی کارکنوں سے لے کر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد تک سب میں مقبول بناتی ہے۔انٹرنیٹ کی اس ‘بلیک مارکیٹ’ میں صرف معلومات ہی نہیں بلکہ جعلی پاسپورٹس، ہتھیار، منشیات اور فحش مواد سب کچھ میسر ہے۔ڈارک ویب دراصل دنیا بھر میں موجود ایسے کمپیوٹر صارفین کا نیٹ ورک ہے جن کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ کو کسی قانون کا پابند نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نظر رکھنی چاہیے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ خفیہ ریکارڈنگ کرتا کون ہے؟ اس ریکارڈنگ کی اجازت کون دیتا ہے۔ یہ وہ اہم سوال ہے جو ماضی میں بھی پاکستان کے سیاست دانوں اور دیگر اہم شخصیات کی جانب سے پوچھا جاتا رہا ہے اور آج بھی پوچھا جا رہا ہے۔ ہم جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو الزامات لگاتے ہیں، اور جب اقتدار میں ہوتے ہیں ، تو اپنے مخالفین کی ان ویڈیوز کو سند کے طور پر لے کر ٹی وی پر پریس کانفرنس کرتے دکھائی دیتے ہیں، آخر کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ؟ ۔