سیاست اور غلاظت

پاکستان میں ہر دن ظلم اور زیادتی کی ایک نئی داستان رقم ہو رہی ہے ہر نئی زیادتی کے بعد پہلے والی زیادتی چھوٹی نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے ملک میں اس وقت ایک جنگ جاری ہے جس میں سب کچھ جائز ہے (جب بھی کسی کو ذلیل اور رسوا کرنے کا موقع ملے ہاتھ سے جانے نہیں دینا)۔ اس جنگ میں دینی،معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہاں کسی شخص کی جان اور مال کتنی محفوظ ہیں اس پر پہلے سوال اٹھتے تھے مگر اب ایسے لگتا ہے اس ملک میں کسی عام و خاص کی عزت بھی محفوظ نہیں ۔

ملکی سیاست میں آڈیو لیک اور سیاسی رہنماؤں پر تشدد کے بعد اب انکی مبینہ گندی ویڈیوذ چلائی جا رہی ہیں۔ کل ایک بڑی دل دہلا دینے والی ایک پریس کانفرنس ہوئی جس میں ایک 75 سالہ بزرگ سینیٹر اعظم سواتی رو رو کر پریس کانفرنس میں میڈیا کو بتا رہے تھے جس طرح ان کی عزت پامال کی گئی ہے اور وہ میڈیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے تھے کب تک تم لوگ خاموش رہو گے اے میڈیا کے لوگوں توڑو یہ چپ کے تالے کیونکہ اگر ایک سینیٹر کے ساتھ ہو سکتا تو محفوظ تم لوگ بھی نہیں۔ اعظم سواتی نے بتایا کسطرح اس کی بیوی اور بیٹی کو نامعلوم نمبر سے انکی اپنی اہلیہ کے ساتھ مبینہ گندی ویڈیو آئی ہے جس پر انکی اہلیہ رو رو کر برا حال ہے ایک ایسی عورت جو اتنی نیک گزار جو نانی اور دادی بن گئی اس کی عزت پامال کی گئی۔ جس کا اس ملک کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اس خدا داد ملک کے بڑے بڑے نام کے عزت داروں نے اس عورت کی عزت کا تقدس نہ رکھا اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔

اس ویڈیو کے بعد پاکستانی عوام سکتے کی حالت میں ہے، شرمندہ اور خوفزدہ ہے اور اس بات پر پریشان ہے کہ طاقت اور حکمرانی کی اس جنگ میں ہم اس ملک کی سیاست کو کتنا پستی میں مزید جاتا ہوا دیکھیں گے۔ کیا اب ہماری سیاست کا محور لوگوں کی پرسنل لائف پر ویڈیوز بنانا اور چلانا رہ گیا ہے؟ اور اصل حیرت کن بات تو یہ ہے جب اعظم صاحب نے بتایا کہ یہ ویڈیو اس وقت کی ہے جب وہ کوئٹہ سپریم کورٹ کے جوڈیشل لاجز میں تھے جس میں ان کے ٹھہرنے کا بندوبست جناب چیئرمین صادق سنجرانی صاحب نے کروایا تھا۔

ایک ایسی جگہ جہاں ہمارے معزز قانون دان، قانون کے رکھوالے، معزز ججز صاحبان اور سیاستدان ٹھہرتے ہیں اسکا یہ حال ہے تو پاکستانی عام شہری کا کیا حال ہو گا؟ وہ تو بلکل محفوظ نہیں۔ مجھے لگتا اب تک بائیس کروڑ میں سے تو دس کروڑ کی ویڈیوز بن گئی ہوں گی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج ہمیں وہ ماضی کے واقعات یاد ہیں جو پہلے اس ملک کی سیاست میں ہوا ہے جب گجرانوالہ سے مادر ملت کے خلاف الیکشن کمپین میں ان کے مخالفین نے کیا اسکے بعد بے نظیر بھٹو جو پہلی مسلمان خاتون وزیر اعظم بنی ان کے خلاف الیکشن کمپین میں ہوتا رہا۔ کیا ہمیں یاد ہے ؟ آج ہم ماضی کی تمام پستیاں بھلا کر ایک 75 سالہ بزرگ کے ساتھ کھڑے ہیں جو کہ ہم نے صرف ٹوئٹ کی حد تک چار یا پانچ دن ساتھ دینا ہے پھر ہم اسے ماضی کی طرح بھول جائیں گے۔

کیا اب ہمیں خوفزدہ ہو جانا چاہیے؟ کیا اب ہمارا سر شرم سے جھک جانا چاہیے ؟

نہیں بلکل نہیں اب تو ہماری گردنوں میں ایسا سریا آ جانا چاہیے کہ اب ہم سب کو اپنے حقوق کیلئے لڑنا چاہیے۔ آج اعظم سواتی ہے کل کو آپ اور میں بھی ہو سکتے ہیں۔ اب ہمیں ان کو بتانا ہو گا کہ ہم کچھ بھی نہیں بھولے اب بس۔ ہمیں چیخ، چیخ کر بتانا ہوگا کہ پاکستان کی سیاست میں کیا ہو رہا ہے۔ جب تک دنیا والے ان کے منہ پے انکی اوقات بتائیں گے تب جا کر شاید یہ معاملہ رکے ۔