شہر کراچی ایک صنعتی اور معاشی حب ہونے کے باعث ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر ایسی صنعتی ترقی اور Industrializtion کے زیر اثر شہر میں تمام قسم کی آلودگی عروج پر ہے۔ یہ آلودگی نہ صرف بچوں اور بزرگوں کو متاثر کر رہی ہے بلکہ نوجوان بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہ آلودگی بل آخر سیکڑوں اقسام کی بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بنتی ہے۔ حالانکہ گلوبل وارمنگ اور گرین ہاؤس ایفیکٹ میں پاکستان کا حصہ %1 سے بھی کم ہے مگر پاکستان اس وقت گلوبل وارمنگ اور گرین ہاؤس ایفیکٹ کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہے اور اس میں بھی بالخصوص شہر کراچی اس مسئلہ سے بہت متاثر ہے۔
شہر کے اطراف مختلف فیکٹریاں جو کہ بھٹی کا استعمال کرتی ہیں فضائی آلودگی کا سبب ہیں۔ ان فیکٹریوں میں سیمنٹ اوراینٹ بنانے والی فیکٹریاں سر فہرست ہیں۔ یہ فیکٹریاں مختلف اقسام کے زہریلے مادے براہ راست فضا میں خارج کرتی ہیں جن میں کاربن مونوآکسائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہیں جو کہ بعد میں مختلف بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں جن میں دمہ کا مرض اور پھیپڑوں کا سرطان بہت عام ہے اور ان دنوں ہوا کا معیار کراچی میں خرابی کے انتہائی درجے پر ہے۔
فضائی آلودگی کے بعد آبی آلودگی بھی اس شہر بے یار کا سر اٹھاتا مسئلہ ہے۔ اول تو پینے کا پانی عوام کو میسر نہیں ہے لیکن جو میسر ہے وہ بھی آلودگی کے انتہائی درجے پر ہے۔ شہر کی اکثر دوا ساز فیکٹریاں اور مختلف اقسام کی کیمیکل بنانے والی صنعتیں استعمال شدہ پانی کو ندی میں چھوڑ دیتی ہیں جو کہ آگے جا کر پینے کے پانی میں شامل ہو کر آبی آلودگی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ اس آبی آلودگی کی وجہ سے خصوصاً بزرگوں اور بچوں میں پیٹ کی بیماریوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے جس میں گیسٹرو سرفہرست ہے۔
آلودگی کی تیسری قسم جوشہر کو متاثر کر رہی ہے وہ شور کی آلودگی نوائس (Noise) پلوشن ہے۔ اس وقت شہر میں لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں موجود ہیں جو گیس پر چلتی ہیں اور فضائی آلودگی پیدا کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ ان گاڑیوں کا ہارن نوائس پالوشن کا سبب ہے جو کہ مریضوں اور بزرگوں کہ لیے قابلِ اذیت ہے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر مچھر اور دیگر بیماری پیدا کرنے والے جراثیموں کی افزائش کا باعث بن رہے ہیں جس وجہ سے ڈینگی اور ملیریا میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت اور اعلی حکام کو چاہیے کہ آلودگی کی ان تمام اقسام کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرے تاکہ شہری مختلف بیماریوں سے بچ کر ایک صحتمند زندگی بسر کر سکیں۔