دھرنوں کی سیاست اور معاشی مسائل

جس ملک میں عوام غریب ہو، اس کے حکمرانوں کو چاہئے کہ غربت کو ختم کرنے کیلئے دن رات کام کریں، پالیسیز بنائیں تاکہ ملک کی معیشت تبدیل ہو۔

سن 1960ء سے لے کر 1970ء تک پاکستان نے خوب ترقی کی اور آج جس پانی کو ہم استعمال کر رہے ہیں، یہ انہی ڈیمز کی وجہ سے ہے جو اسی عرصے کے دوران بنے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان اور پاکستان کے عوام کیلئے سوچا جاتا تھا اور کام بھی کیا جارہا تھا۔

ساری دنیا میں پاکستان کا ایک نام تھااور پاکستان کی ترقی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ اس کے باوجود کہ یہ دور سیاسی دور نہیں تھا، بلکہ ایک فوجی حکمران کا دور تھا، دنیا حیران تھی کہ فوج کے دور میں ملک کس طرح ترقی کر رہا ہے؟ کیونکہ عام طورپر جمہوریت اور سیاسی حالات ہی ملک کو بہتر کرتے ہیں۔

بعد ازاں سن 1970ء کے بعد پاکستانی عوام کو امید تھی کہ سیاستدان پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنا دیں گے ، مگر پاکستان کئی سالوں تک مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہا۔ عوام نے بھی امید لگالی تھی مگر عوام کو پھر مایوسی ہونے لگی۔ 2012ء میں جب پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 3.8فیصد تھی ، لوگ بہت غمزدہ ہوگئے تھے۔

لوگوں نے امید چھوڑ دی تھی کہ پاکستان کی معیشت بہتر ہوگی۔ اسی دوران عمران خان نے اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے عوام کے جذبات کی رہنمائی کی اور لوگوں سے کہا کہ ایک سونامی آئے گا اور ملک میں ترقی ہوگی۔ سونامی جیسے الفاظ تباہی کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جب عمران خان کوپتہ چلا تو انہوں نے سونامی کے الفاظ کو آزادی مارچ کانام دے دیا۔

جب یہ سلسلہ 2014 میں عروج پر پہنچا تو یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کی معیشت 3.8فیصد سے 4.68فیصد نمو حاصل کر رہی تھی، مگر عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں میں صرف ایک ہی نعرہ تھا کہ حکومت کو تبدیل کیا جائے، اور نئے حکمران آئیں۔

عمران خان نے کہا کہ ہم پاکستان کو ایک بار پھر آزاد کریں گے۔ ایسی پالیسیاں بنائیں گے جن سے غربت ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے۔ ہر انسان کو سستااور جلد انصاف ملے گا۔بدعنوانی ختم ہوجائے گی۔ بچوں کو اچھی تعلیم ملے گی۔ بجلی کی فراہمی سستی کی جائے گی اور ہر انسان کے اخراجات کم کیے جائیں گے۔

ساتھ ہی ساتھ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ہم صنعتوں کے اندر بھی پیداواری لاگت کم کردیں گے۔ اس وقت کے حکمران میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان دھرنوں کی وجہ سے اور آپس میں لڑنے اور سڑکوں پر آنے کی وجہ سے کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا،جبکہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے۔ اس لیے آزادی کے نام پر لوگوں کو بہکانا ، سڑکوں پر لانا بند کریں۔ بصورتِ دیگر مستقبل میں یہ نقصان بڑھ جائے گا۔

مگر عمران خان نے اسے ایک سیاسی ایجنڈا سمجھا اور ایک تحریک چلائی ۔ بالآخر عمران خان کی حکومت آئی اور عوام نے یہ دیکھا کہ سن 2017 سے قبل جو مہنگائی کا طوفان تھا، اس سے کئی فیصد زیادہ مہنگائی بڑھی۔ عمران خان مہنگائی قابو نہیں کر پائے۔ مختلف وزیر بدلے، بیانات تبدیل کیے تاہم حالات قابو میں آتے نظر نہ آئے۔

صورتحال اس قدر خراب ہوگئی تھی کہ سب سیاستدان ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ اب ملک کے اندر معیشت کو قابو کرنا مشکل ہوچکا ہے اور معیشت کو بہترکرنے کیلئے بہت وقت لگے گا۔ انہی باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عوام پی ٹی آئی کے خلاف ہونے لگی اور عمران خان کی حکومت گر گئی۔

اس کے بعد درحقیقت وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔  مہنگائی مزید بڑھ گئی۔ یعنی 2014ء سے 2017ء تک جو دور تھا، اسے لوگ یاد کرنے لگے۔ شہباز شریف صاحب عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی پر قابو نہ کر پائے جس کا عمران خان نے بہترین فائدہ اٹھایا اور لوگوں سے کہا کہ پاکستان کے حکمران چور ہیں۔ امپورٹڈ حکومت ہے اور ایک بار پھر 2014 کی طرح عوام سے سڑکوں پر آنے کا کہہ دیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے عوام کو آزادی مارچ کرنے کا کہا۔ اب عوام کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ 2014 میں بھی جب پاکستان کی جی ڈی پی نمو پارہا تھا، اس وقت بھی عمران خان نے آزادی مارچ کے نام پر لوگوں کو باہر نکالا اور جو نعرے لگا کر عمران خان حکومت میں آئے تھے، ان میں سے کسی پر بھی کام نہیں ہوا۔

معیشت تو چھوڑیں، سستا انصاف ملا نہ ہی کرپشن ختم ہوئی۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں لوگوں کو ہر چیز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آج جبکہ پورا پاکستان سیلاب کی مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے۔ سیاستدان دھرنے اور سڑکوں پر حالات خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں، مگر کوئی بھی ان سیلاب زدگان کا نہیں سوچ رہا۔

دیگر ممالک پاکستانیوں کیلئے امداد دے رہے ہیں تاکہ وہ لوگ جو سیلاب کے ستائے ہوئے ہیں، ان کی زندگی بہتر ہو اور ان باہر کے لوگوں کوحیرت ہے کہ سیلاب زدہ افراد کی مدد کی جگہ سیاستدان سڑکوں پر دھرنے اور اپنی حکمرانی کیلئے لڑ رہے ہیں۔ انہیں حیرت ہے کہ یہ کیسے حکمران ہیں کہ سیلاب کے ستائے ہوئے لوگوں کے بارے میں کسی بھی دھرنے یا جلسے میں ذکر نہیں کیا گیا؟

ذکر کیا گیا تو صرف حکومت ہٹانے اور الیکشن کرانے کا کہا گیا۔ کیا الیکشن کرانے سے عوام کو کوئی فائدہ ہوگا؟ یا پھر سیاستدانوں کو؟ سیاستدان ایک بار پھر صرف اور صرف اپنی حکمرانی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عوام کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلائی جارہی ہے۔

ہمیں چاہئے کہ ہم دھرنے اور سڑکوں پر آکر ہنگامہ نہ کریں بلکہ اپنے اپنے کاروبار کے اندر بہتری لائیں اور دیگر ممالک کے لوگوں کی طرح ہم بھی اپنے ہی غریب پاکستانیوں کی مدد کی طرف توجہ دیں ، تاکہ پاکستان کے عوام ایک اچھی زندگی گزار سکیں۔

حصہ
mm
ندیم مولوی ملک کے معروف ماہر معیشت ہیں،وہ ایم ایم سیکورٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹربھی ہیں،ندیم مولوی کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔