ہماری نسلیں ( حصہ دوم )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ سب عبادت کی نیت سے میلوں چل کر اپنی نمازوں پر ڈھیروں اجر و ثواب پانے اور میراث انبیائے کرام علیھم السلام مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے وہاں پہنچے تھے۔

حسام اپنی امی جان عھد تمیمی کا ہاتھ تھامے مسجد اقصی میں داخل ہونے لگا تھا کہ اسرائیلی پولیس کے ان کے اور مسجد اقصیٰ کے درمیان آگئی تھی۔ پچاس سال سے کم عمر نہ کوئی مرد نہ کوئی عورت حتی کہ کوئی بچہ بھی مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا۔

حسام کی نگاہیں گیٹ کے پار صحن میں یہود کو دندناتا دیکھ رہی تھیں۔ مسجد کے مشرقی حصے سے کتنے ہی مسلمانوں کو پکڑ کر نظر بند کیا جا رہا تھا۔ عھد تمیمی کا دل آنے والے خطروں سے لرز رہا تھا کیا مسجد اقصیٰ میں بھی وہ سب دہرایا جائے گا جو الخلیل شہر میں مسجد ابراہیمی کے ساتھ ہوا۔ ہم نماز فجر کی ادائیگی کے لیے آئے ہیں۔ عھد دو قدم آگے بڑھی۔

لیکن

آج مسجد اقصیٰ میں داخل نہ ہونے کے لیے پچاس سال سے کم عمر ہونا ایک کافی اور بڑا جرم تھا۔

وہ بے بسی سے ہونٹ بھینچے پیچھے ہٹ گئی۔ آج زندگی میں پہلی بار اسے لگا وہ مسجد اقصیٰ کھو چکی ہے۔

فضاؤں میں گھورتی نگاہیں حضرت عمر فاروقؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کو کھوج رہی تھیں۔ شاہان عرب سے لے کر ایٹمی طاقت پاکستان تک کوئی ہے جو ہماری بے بسی پر لبیک کہے، ہماری جبینوں میں تڑپتے سجدوں کے لیے پنجہ یہود میں جکڑے مسجد اقصیٰ کے دروازوں کو نمازیوں کے لیے کھلوا دے؟ وہ بے بسی اور غم کی کیفیت میں تھی۔

کون بلا رہا ہے مجھے؟ طلحہ کو اور زبیر کو؟“ حلیمہ چکرائی چکرائی صحن میں پھر رہی تھی۔ کہیں سے ردی اخبار کا ایک ٹکڑا اڑتا اڑتا صحن میں آ گرا تھا۔ اس نے غیر ارادی طور پر وہ اٹھا لیا تھا۔

مسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی، فلسطینی مسلمانوں کے خون سے رنگی ارض مقدس۔ اخبار کا ایک بے کار چھوٹا سا ٹکڑا اقصی کے آنسوٶں سے تر تھا۔

کیا ہم جسد واحد ہیں؟

اگر ہم اسی جسم کا حصہ ہیں تو کہیں سے ٹیس کیوں نہیں اٹھتی؟

کچن سے لے کر فرج تک، وارڈ روب سے لے کر ڈریسنگ ٹیبل تک اور واش روم سے لے کر بیڈ روم تک ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پراڈکٹس سے گھر بھرا پڑا تھا جو اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اسرائیل کے تحفظات کے لیے وقف کر دیتی ہیں۔

جنہوں نے محلے کی مسجد میں نماز نہیں پڑھی تھی انہیں مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی پر بھلا کیا تردد ہو سکتا تھا؟

خواب میں دکھائی گئی آنکھوں پر بندھی پٹی کھلتی تو

کلائیوں پر لگی گرہوں کو کھولنے کی باری آتی۔

حلیمہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

عھد تمیمی کے آنسو حلیمہ کے دل سے اٹھنے والی اللھم لبیک کی صدا کی آبیاری کر رہے تھے۔

وہ بے قرار و بے چین کمرے میں چلی آئی۔

کتاب کے اوراق ہوا کے دوش پر پلٹ رہے تھے۔

شام، فلسطین اور بیت المقدس کی فضیلیت آیات قرآنی اور احادیث رسول محمد صلى الله عليه واله وسلم کی روشنی میں۔

سرزمین فلسطین اور انبیاء

مسجد اقصی کے فضائل

یہود۔۔۔ اقتدار مصر سے قیام اسرائیل تک

مظلوم اسلامیان فلسطین

روئے ارضی پر کلمۂ اسلام کا غلبہ

یہ سب اسے جاننا تھا۔  طلحہ اور زبیر کو سمجھانا تھا۔  وہ وقت تو اب دور نہیں جب اس کرہ ارض پر ہر ہر گھر میں اسلام پوری شان و شوکت کے ساتھ داخل ہو کر رہے گا۔

سوچنے کی بات تو فقط اتنی ہے کہ جب عالمی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہو گا۔ جب مسلم امہ ایک بار پھر رب کائنات کی اس زمین پر مسند خلافت سنبھالنے والی ہو گی۔ اس وقت ہماری نسلیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فوج کا حصہ ہوں گی

یا

فتنہ دجال کا تر نوالہ ؟