حسن اخلاق،حلال کھانا،گفتگو میں سچائی ، امانت میں پاسداری
امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب الادب المفرد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے، جس میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ امت کو چار خصلتوں کے حصول کی ترغیب دے رہے ہیں، اور احادیث کی بعض کتابوں میں اسے رسول اللہ ﷺکی حدیث کے طور پر ذکر کیا گیاہے۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ چار صفات سے نواز دیںاور دنیا کی کوئی اورچیز اس کے پاس موجود نہ بھی ہو، تو اسے کسی غم اور فکر کی ضرورت نہیں ، گویا کہ یہ چار خصلتیں بہت بڑی دولت ہیں، جن کے مقابلے میں دنیا کی مادی دولتیں ہیچ ہیں، ان کی ۔
پہلی خصلت: حسن اخلاق
پہلی خصلت کہ جو انسان کے اندر پائی جائے،” حُسْنُ خَلِيقَةٍ ” وہ حسن اخلاق ہیں، حقیقت یہ ہے کہ علم اور عمل کا خلاصہ اور نچوڑ اچھے اخلاق ہیں، ساری تعلیم ، علوم وفنون میں مہارت، دنیا بھر کی ڈگریاں کسی کے پاس موجود ہوں لیکن اگر اس کے پاس اچھے اخلاق نہیں تو گویا کہ کچھ نہیں۔ ہمارے نبی ،رسول اللہ ﷺنے ایک طرف احادیث میں ارشاد فرمایا ہے: مجھے معلم ،تعلیم دینے والا بناکر بھیجا گیا ہے، تو ساتھ دوسری جانب آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ : مجھے اس لیے بھی مبعوث کیا گیا ہے، بھیجا گیا ہے تاکہ اعلیٰ اخلاق کی میں تکمیل کروں۔اور پھر رسول اللہ ﷺنے ایسے اخلاق کی تعلیم بھی دی اور عملی نمونہ پیش کیا کہ جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بلند کلمات سے فرمایا کہ: آپ اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہیں۔
رسول اللہ ﷺکے بلند اخلاق کا نمونہ
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آپ کے ان بلند اخلاق کا نقشہ یوں بیان کیا ہے کہ :مدینہ منورہ میں اگر کسی باندی کو بھی کوئی کام ہوتا ،کوئی ضرورت ہوتی تو وہ حضورﷺکو طلب فرماتیں تو آپ اس کی ضرورت کے لیے بھی حاضر ہوتے ،اور جہاں وہ کہتی آپ اس کے کام کو سرانجام دیتے۔
اس پہلی خصلت کا حصول بھی ہر صاحب ایمان کو کرنا چاہیے،اور حقیقت یہ ہے کہ انسان عبادات کی کمی کے باوجود حسن اخلاق کی بدولت بڑا اونچا رتبہ حاصل کرسکتاہے، اس لیے سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: آدمی حسن اخلاق کی بدولت ،ان لوگوں کا مقام حاصل کرلیتا ہے جو رات بھر نوافل پڑھتے ہوں اور دن بھر روزہ رکھتے ہوں۔ کتنی اونچی فضیلت اس حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو آخری اور اہم نصیحت
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں، انہیں یمن کی جانب بھیجتے ہوئے رسول اللہ ﷺنے کئی نصائح فرمائی تھیں،امام مالکؒ نے مؤطا امام مالک میں اس سلسلہ میں حضرت معاذ ؓکا یہ قول نقل کیا ہے ،حضرت معاذ ؓفرماتے ہیں : میں نے روانہ ہونے کے لیے اپنی سواری کی رکاب میں پاؤں رکھ دیا تھا ،تو سرکار دوعالم ﷺنے ارشاد فرمایا :اے معاذ!لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا۔
دوسری خصلت: پاکیزہ کھانا
دوسری خصلت یہ بیان فرمائی کہ “ وَعَفَافُ طُعْمَةٍ “کھانے میں حلال کا اہتمام کرنے والا ہو۔یہ بھی بڑی اونچی خصلت ہے، انسان کو ہمیشہ حلال کا اہتمام کرنا چاہیے، اور کسی بھی حرام کے ذریعے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہیے۔حرام سے تو ایک مسلمان دور رہے، مشتبہ سے بھی اپنے آپ کو بچائے، حلال کمائی سے انسان نیکی کی طرف راغب ہوتا ہے، نیکی کا جذبہ اور شوق پیدا ہوتا ہے۔اس لیے ایک روایت میں رسول اللہ ﷺنے حلال روزی کی طلب کو بھی ایک اسلامی فریضہ قرار دیا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سب سے افضل عبادت حرام سے بچنے کو قراردیتی تھیں۔حرام کھانے کی وجہ سے انسان کی عبادات مقبول نہیں ہوتیں، دعائیں رد ہوجاتی ہیں، احادیث میں تفصیلاً اس کا ذکر موجود ہے۔
تیسری خصلت: گفتگو میں سچ اختیار کرنا
تیسری خصلت یہ بیان کی کہ “ وَصِدْقُ حَدِيثٍ ” جب کسی کو بات میں سچائی کی دولت نصیب ہو ، یہ بھی اعلیٰ صفت ہے ۔سچائی دنیا و آخرت دونوں میں انسان کو نفع دیتی ہے، کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔رسول اللہ ﷺنے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے :سچ انسان کو نیکی اور بھلائی کی راہ دکھاتا ہے، اور نیکی انسان کو جنت لے جاتی ہے۔اور ایک روایت میں فرمایا:جو اللہ اور اور کے رسول سے حقیقی محبت کرتا ہو اسے سچی بات کرنی چاہیے۔لقمان حکیم ؒجن کی حکمت ودانائی کے اقوال قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمائے ہیں ، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو یہ حکمت و دانائی کیسے حاصل ہوئی ؟انہوں نے کہا میں نے ہمیشہ دو چیزوں کا اہتمام کیا: ایک یہ کہ ہمیشہ سچ بولنا، اور دوسرا فضول کاموں سے اجتناب۔ان دو اسباب سے مجھے یہ حکمت ودانائی حاصل ہوئی ہے۔
چوتھی خصلت: امانت کی پاسداری
چوتھی خصلت جس کا اس روایت میں ذکر کیا گیا وہ یہ ہے کہ “ وَحِفْظُ أَمَانَةٍ ” کہ امانت کی پاسداری ہونی چاہیے۔انسان کے پاس امانت چاہے مال کی صورت میں ہو، چاہے کلام کی صورت میں ہو، عہدہ اور منصب کی صورت میں ہو، مشورہ کی صورت میں ہو، بہر صورت امانت کا لحاظ رکھنا چاہیے، امانت کی پاسداری اور خیال رکھنا چاہیے۔
امانت کی مختلف صورتیں
اسی طرح کسی شخص کے پاس بطور عاریت کے کوئی سامان ہو ، کسی نے استعمال کے لیے کوئی چیز دی ہے یہ بھی امانت میں شامل ہے، راستے میں یا کسی بھی جگہ کوئی گری پڑی ہوئی چیز کسی انسان کو ملتی ہے یہ بھی امانت ہے، اسے بھی مالک تک پہنچانے کی کوشش کی جائے۔کسی نے مال رکھوایا اور رکھوانے والا دنیا سے چلا گیا یہ مال بھی امانت ہے، اس مرحوم کے ورثاء تک پہنچایا جائے۔
بعض کتب میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ منقول ہے: یہ امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک اس امت کے افراد میں تین صفات موجود ہوں گی، ایک یہ کہ بات کرنے میں سچائی کو اختیار کرنے والے ہوں، دوسرا یہ کہ جب فیصلہ کریں تو حق اور انصاف کے مطابق فیصلہ کریں۔اور تیسرا یہ کہ جب امت کے لوگوں سے رحم طلب کیاجائے تو رحم کریں۔اور یہ تین اصول جب امت سے خارج ہوجائیں تو وہ فتنے میں مبتلا ہوجائے گی۔
رسول اللہ ﷺکا اپنے خطبوں میں امانت کا ذکر فرمانا
حضرت انس رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے تھے کہ:اکثر و بیشتر رسول اللہﷺہمیں خطبہ دیتے تو یہ ارشاد فرماتے تھے ” لاَ إِيمَانَ لِمَنْ لاَ أَمَانَةَ لَهُ ، وَلاَ دِينَ لِمَنْ لاَ عَهْدَ لَهُ.”جس میں امانت داری کا وصف نہیں اس کا ایمان کامل نہیں اور جس میں عہد و وعدہ کی پاسداری نہیں اس کا دین کامل نہیں۔
حاصل یہ ہے کہ جس مسلمان کے پاس یہ چار صفات موجود ہوں اگردنیا کی کوئی دولت اس کے پاس نہ بھی ہو تب بھی اس کے لیے یہی چار صفات کافی ہیں، یہی چار خصلتیں سب سے بڑی دولت ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان چاروں خصلتوں کو اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے۔