پیدائشی طور پر تو ہر بچہ اسلام کی فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے۔ مگر اس کے والدین کی سوچ اور نظریہ ہی عموما اس کی سوچ یا نظریہ بن جاتی ہے۔ یہ تو معلوم ہی تھا کہ والدین ہی ہیں جو اولاد کو مجوسی یا عیسائی بنا دیتے ہیں، ادھر ہمارے والدین کی اکثریت ہے کہ خود بھی پیدائشی مسلمان کا جھومر سجائے بیٹھی ہے اب اسے اپنی خوش قسمتی سمجھیے یا بد قسمتی کہ نسل در نسل منتقل ہوتے اس جھومر سے ہم بھی فیضیاب ہوئے بناء نہیں رہتے، اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم تا زندگی مسلمان رہتے ہیں، کوئی مائی کا لعل ہمیں ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کر سکتا، بھلے اعمال میں ہم سے کوتاہی ہو جاتی ہو مگر بندگی تو ہم رب کی ہی کرتے ہیں، کیا ہوا اگر بندگی کے اظہار میں ہم سے کوتاہی یا سستی ہو جاتی ہو۔
اب بندہ پوچھے کہ ہر ایرے غیرے۔ ا ب ج کو ہم اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت کیوں دیتے پھریں، یوں بھی ہم اسلاف کا سا ظرف، حوصلہ، تحمل و بردباری تو نہیں رکھ سکتے، وہ تو اللہ کے چنیدہ بندے تھے۔ ہم عام سے لوگ ایمان کو قلب سے عمل میں ڈھالنے سے قاصر ہیں۔ آخر کو۔ جو ہم نے بہت بار خود پر ہونے والی زیادتی کا بدلہ نہیں لیا، درگزر کی روش ہی اپنائی۔ کچھ تو کام آئے گی نا یہ نیکی بھلے ‘ بے بسی ‘ یا ‘ بزدلی ‘ ہی اس نیکی کے ظہور کا سبب بنی ہو۔ شاعر نے شاید انہی کے لئے کہا تھا۔
اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا
بہرحال پیدائشی مسلمانوں کے اس قضیہ کو مؤخر کرتے ہوئے ہم آتے ہیں ایک دوسرے گروہ کی طرف۔ پہلے تو ہم بتاتے چلیں کہ یہ لوگ پیدائشی مسلمان کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ ‘مسلمانیت’ کے معیار پر بھی پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ اچھے ہمسائے، رشتہ دار تو ہوتے ہیں مگر بلند نگاہ نہیں ہوتے اور نیکی کا محدود تصور رکھتے ہیں۔ یہ دانستہ کسی کو تکلیف پہنچانے سے حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ معاشرے میں بے ضرر سمجھے جاتے ہیں، لوگوں کو ان سے شر پہنچنے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا، گویا خیر کے پیامبر ہوتے ہیں یہ لوگ۔ لیکن بعض اوقات انکی بے نیازی ہی ان کے حاسدین پیدا کر دیتی ہے جس سے انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جذبہ خیر سے مالامال ان لوگوں کو عموما ہلکا ہی لیا جاتا ہے مگر یہ اپنی طبعی شرافت کے باعث لوگوں پر غلبہ پانے کی فکر نہیں کرتے۔ یہ لوگوں کو ‘غلط’ کرنے کا موقع مروت اور لحاظ میں دیتے ہی رہتے ہیں، اور لوگ ہیں کہ خود کو ‘سمارٹ’ سمجھتے ہوئے ان کا خون تک چوس جاتے ہیں مگر یہ اف نہیں کرتے۔
رب العالمین کی کائنات تنوع سے بھری پڑی ہے جس میں ایسے ایسے مسلمانوں سے بھی واسطہ پڑ جاتا ہے جو اذیت دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں، تکلیف میں دیکھ کر اطمینان کی کیفیت ان پر طاری ہو جاتی ہے۔ خوش دیکھ بے چین ہو جاتے ہیں اور ممکن ہو تو چہروں سے خوشی نوچنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، بعض اوقات ان میں پانچ وقت کے نمازی بھی ہوتے ہیں، گردوپیش والے اسی انتظار میں ان کے ساتھ نبھاتے رہتے ہیں کہ کبھی تو نماز ان کو بے حیائی اور بری باتوں سے پاک کر دے گی۔
لوگوں کی ایک قسم ایسی بھی پائی جاتی ہے اور کثرت سے پائی جاتی ہے جو نظریہ ضرورت کے تحت تعلقات کے قیام یا اختتام کی قائل ہوتی ہے، صلہ رحمی کی برکتوں سے محروم یہ لوگ مفادات کے اسیر ہوتے ہیں، اللہ کے دیئے مال میں سے انفاق کرنا ان کے لئے وبال جان ہوتا ہے، دنیاوی جاہ وحشم کے حصول کے لئے ‘ربا ‘ اورحرام ذرائع سے کمانا بھی انہیں مطمئن رکھتا ہے، بہت بار شریعت پر عمل انہیں دقیانوسیت لگتا ہے زندگی مال، اولاد جھلگاذائیداد کے گرد ہی گھومتی ہے۔
اب آتے ہیں ہم نہایت نایاب اور کمیاب مسلمانوں کے گروہ کی جانب۔ اس سے پہلے کہ اس گروہ کہ صفات بیان کی جائیں، یہ جان لینا ضروری ہے کہ مسلمانوں کا یہ گروہ جس اخلاق پر کاربند ہے، وہ اس اخلاق سے قطعاً مختلف ہیں جو نظریہ ضرورت کےتحت اپنا لئے جاتے ہیں۔ جی ہاں یہ اخلاق، اس اخلاق سے نہیں ملائے جا سکتے، کہ بدلے کی امید میں جن کا ظہور ہوتا ہے۔ اور جو ری سائیکلنگ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
یہ غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے ہوتے ہیں، اللہ کے لئے ہی محبت رکھتے ہیں اور اللہ کے لئے ہی دشمنی۔ یہ انفرادی تزکیے کے ساتھ ساتھ اجتماعی تزکیے کے لئے بھی کوشاں ہوتے ہیں۔ یہ فرد سے لے کر معاشرے اور ملک سے لے کر پوری دنیا شہادت حق کے داعی ہوتے ہیں۔ امام حنبل سے تیمیہ، شاہ ولی اللہ، مودودی تک سبھی حریت پسند قافلے کے ارکان ہیں جو حق بات کہنے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہ ذاتیات کی کشمکش میں الجھ کر بلند پروازی کے حسین پہلوؤں سے تشنہ نہیں رہتے بلکہ خودی کی اس بلندی تک جا پہنچتے ہیں کہ اللہ ان کی دعاؤں، طاقت قلم، زبان، عمل سے امت کی تقدیر لکھتا ہے۔ اللہ ہمیں انہی نایاب گروہ کا حصہ بننے کی توفیق دے۔ آمین