یہ بھی حکمت باری تعالیٰ تھی کہ آپ ﷺ کو بے حد چاہنے والوں کو آپ کی تعلیم کا خیال نہ آیا۔ اقراء سے آغاز کرتے ہوئے جبریل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے آپ ﷺ کی پہلی باقاعدہ کلاس لی۔ آپ ﷺ کی تعلیم و تربیت خود اللہ تعالیٰ نے کی۔ “اور تم کو ان باتوں کا علم دیا جو تم نہیں جانتے تھے”(القرآن) آپ ﷺ نے فرمایا ‘انما بعثت معلما’.دارارقم مکہ میں اور صفہ مدینہ میں پہلا باقاعدہ تدریسی حلقہ تھا۔ قرآن میں آتا ہے
لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة
جب ہم معلم انسانیت کے حلقہ درس پر نظر دوڑاتے ہیں تو تدریسی خوبیوں کے اجتماع سے تو فیض یاب ہوتے ہی ہیں لیکن آپ ﷺ تو ہر آن سراپا معلم تھے۔ تدریس سے آپ ﷺ کو اتنا شغف تھا کہ بدر کے کئی قیدیوں کو ‘تدریس’ کی صورت فدیہ لے کر رہا کر دیا گیا۔
آپ ﷺ تخییر کے واقعہ میں، جب کہ اونچے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی امہات نے خرچ میں اضافے کا مطالبہ کیا اور پھر آپ ﷺ پر جب آیات نازل ہوئیں تو سب سے پہلے آپﷺ نے حضرت عائشہ کو پوچھا نیز ان کی کم عمری کا لحاظ کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے ماں باپ سے مشورہ کر کے بتا دینا کہ اللہ اور اس کا رسول چننا پسند کرو گی یا مال ودولت دے کر تمھیں رخصت کر دوں۔ سیدہ نے فرمایا کہ مجھے اللہ اور اس کا رسول پسند ہیں نیز درخواست کی کہ جب دوسری امہات سے پوچھیں تو میرا جواب مت بتائیے گا۔ کیونکہ یہ بات ایک فطری جذبہ رقابت کے باعث کہی گئی تھی لہٰذا آپ ﷺ نے فوری اصلاح فرماتے ہوئے کہا۔
إن الله لم يبعثني معنتاً ، ولا متعنتاً ، و لكن بعثتي معلماً ميسراً
ترجمہ: اللہ تعالی نے میری بعثت اس لئے نہیں کی کہ میں (لوگوں کو) مشکل میں مبتلا کروں یا یہ چاہوں کہ دوسرے مشکل میں مبتلا ہوں، بلکہ اللہ نے مجھے (دوسرے کے لئے) آسانیاں پیدا کرنے والا معلم بنا کر بھیجا ہے”
آپ ﷺ نے ہفتے میں ایک دن تدریس کے لئے مختص کر رکھا تھا تا کہ لوگ اکتا نہ جائیں۔ عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نصیحت کرنے کے لیے ہمیں کچھ دن مقرر کردیے تھے اس ڈر سے کہ کہیں کبیدہ خاطر نہ ہوجائے(بخاری)۔
اسی اصول کے پیش نظر آپ ﷺ نے ایک شکایت کے نتیجے میں اس صحابی اور امام کی اصلاح فرمائی جو لمبی نماز پڑھاتے تھے۔ کیونکہ اس سے لوگوں کے فتنے میں پڑ جانے کا احتمال تھا اس لئے آپ ﷺ نے انہیں بزرگ، بیماروں اور کام کرنے والوں کی رعایت رکھنے کو فرمایا۔
آپ ﷺ کے حلقہ درس میں جھانکیں تو اصول تدریج بھی آپ ﷺ کے اہم تدریسی عنصر کے طور پر آپ ﷺ کے فلسفہ تعلیم کا جزو نظر آئے گا۔ ظاہری سی بات ہے کہ فہم اسی صورت پیدا کرنا ممکن ہے اور کردار میں مضبوطی، اسےاستقامت اور اولو العزمی اسی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمان کردار کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں۔امام ابو حنیفہ ہوں یا امام مالک، امام شافعی یا حنبل یا پھر ابن تیمیہ۔ نماز، روزہ کی فرضیت میں بھی تدریج کے پہلو کا لحاظ رکھا گیا اور سود وشراب کی حرمت بھی تدریجاً کروائی گئی۔ جب آپ ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو انہیں خاص ہدایت فرمائی کہ اپنے احکام و معمولات کو لوگوں کے لئے سہولت کا باعث بنانا، دشواری و مشکل نہ بنانا اور انہیں خوشخبریاں دینا۔ اُنہیں نفرت نہ دلانا۔
آپ ﷺ مخاطب کی ذہنی سطح کو بھی مد نظر رکھتے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس بدو کو برا بھلا کہنے سے بھی منع فرمایا جس نے مسجد کے تقدس کو پیشاب کر کے پامال کیا۔ آپ ﷺ نے اس بدو کو بھی حکیمانہ انداز میں تبلیغ کی جس نے کہا کہ اللہ مجھے اور تمھیں جنت میں داخل کرے اور کسی کو نہ کرے۔
آپ ﷺ مخاطب کی نفسیات کا بھی خوب لحاظ فرماتے اور جسمانی حرکات و سکنات اور اشاروں سے بھی تدریس کو پر اثر فرماتے۔ بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنت کی ضمانت دیتے ہوئے دو انگلیوں کو ملا کر فرمایا کہ وہ اور میں جنت میں یوں ہوں گے
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے عمارت کی مانند ہے،جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے، راوی فرماتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو قینچی کی طرح کیا۔(بخاری)
آپ ﷺ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے۔ کیونکہ انہیں اپنی قابلیت کا اظہار مقصود نہ تھا بلکہ معلم انسانیت محسن انسانیت کے درجے پر فائز تھے اور ان کا جذبہ خیر خواہی ان سے اسی طرز تدریس کو اپنانے کا کہتا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ ارشاد فرماتی ہیں رسول اللہﷺ کی گفتار جدا جدا ہوتی تھی، ہرسننے والا اس کو سمجھتا تھا۔ (ابی داؤد) فرماتی ہیں رسول اللہﷺ تمھاری طرح جلدی جلدی گفتگو کرنے والے نہیں تھے۔ (بخاری)
اللہ ہمیں چلتا پھرتا معلم بنائے جیسے کہ آپ ﷺ تھے۔آمین